امریکہ کی جانب سے مار گرائی نامعلوم ’چیزوں‘ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

پینٹاگون حکام کا خیال ہے کہ دوران امن امریکی فضائی حدود میں ہونے والے ان غیرمعمولی واقعات کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ویڈیوز میں جھیل ہیورون کے قریب مشی گن کے ایک قصبے پر طیاروں کو پرواز کرتے دکھایا گیا ہے، جہاں امریکی فوج نے ایک آٹھ اطراف والی نامعلوم چیز کو مار گرایا (فوٹو: صالح ٹریڈز/ روئٹرز)

امریکی صدر جو بائیڈن کے حکم پر ایک امریکی لڑاکا طیارے نے اتوار کو ہیورون جھیل کے اوپر ایک اور ’نامعلوم چیز‘ کو مار گرایا، جو گذشتہ آٹھ دنوں میں اس قسم کی چوتھی کارروائی ہے۔

خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق پینٹاگون حکام کا خیال ہے کہ دوران امن امریکی فضائی حدود میں ہونے والے ان غیرمعمولی واقعات کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

شمالی امریکی ایروسپیس ڈیفنس کمانڈ (این او آر اے ڈی) اور امریکی شمالی کمان کے سربراہ جنرل گلین وان ہرک نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ فضا میں بار بار کارروائی کی ایک وجہ وہ ’ہائی الرٹ‘ ہے، جو جنوری کے آخر میں امریکی فضائی حدود میں چین کے مبینہ جاسوس غبارے کے واقعے کے بعد کیا گیا تھا۔

اس کے بعد سے گذشتہ ہفتے لڑاکا طیاروں نے کینیڈا اور الاسکا میں بھی دو نامعلوم چیزوں (Objects) کو مار گرایا تھا۔

 پینٹاگون حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان نامعلوم چیزوں سے کسی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا، لیکن ان کے بارے میں معلومات اتنی کم ہیں کہ پینٹاگو حکام یو ایف او (اڑن طشتری) سمیت کسی بھی چیز کے امکان سے انکار نہیں کر رہے۔

ہوم لینڈ ڈیفنس کی معاون وزیر دفاع میلیسا ڈالٹن نے کہا کہ ’ہم اپنی فضائی حدود کی زیادہ باریک بینی سے جانچ پڑتال کر رہے ہیں، جس میں ہمارے ریڈار کی صلاحیت بڑھانا بھی شامل ہے، جس سے کم از کم جزوی طور پر (ان اجسام میں) اضافے کی وضاحت ہوسکتی ہے۔‘

امریکی حکام نے واضح کیا ہے کہ وہ نامعلوم ریڈار بلپس (ریڈار پر نمودار ہونے والے اجسام) کی مسلسل نگرانی کرتے ہیں اور ان کا جائزہ لینے کے لیے احتیاط کے طور پر فضائی حدود کو بند کرنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔

 لیکن غیر معمولی طور پر جارحانہ ردعمل سے یہ سوالات اٹھ رہے تھے کہ کیا طاقت کا اس طرح استعمال ضروری ہے، بالخصوص جب انتظامیہ کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ یہ چیزیں قومی سلامتی کے لیے زیادہ تشویش کا باعث نہیں تھیں اور یہ کارروائیاں صرف احتیاط کے طور پر کی گئیں۔

جنرل گلین وان ہرک نے کہا کہ امریکہ نے اپنے ریڈار کو ایڈجسٹ کیا ہے تاکہ وہ سست چیزوں کا سراغ لگا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ ہم ریڈار ٹریک کی بہتر درجہ بندی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ اسی وجہ سے یہ آپ کو نظر آ رہے ہیں، علاوہ ازیں ایسی معلومات کی تلاش کے لیے الرٹ بھی بڑھا دیا گیا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’میرے خیال میں یہ پہلا موقع ہے جب امریکہ یا امریکی فضائی حدود کے اندر این او آر اے ڈی یا امریکی شمالی کمان نے کسی فضائی شے کے خلاف فوجی کارروائی کی ہے۔‘

خلائی مخلوق کی موجودگی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر وین ہرک نے کہا: ’میں نے اس وقت کسی بھی چیز سے انکار نہیں کیا۔‘

پینٹاگون کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اصل میں یہ چیزیں کیا تھیں۔ حکام کے مطابق انہوں نے میزائلوں کے بجائے جیٹ طیاروں کی بندوقیں استعمال کرنے پر غور کیا تھا، لیکن یہ بہت مشکل ثابت ہوا۔

یہ غیر معمولی فضائی دفاعی سرگرمی گذشتہ ماہ جنوری کے آخر میں شروع ہوئی، جب حکام کے بقول مبینہ طور پر چین کے جاسوس غبارےکو کئی روز تک امریکہ کے اوپر پرواز کرنے کے بعد لڑاکا طیاروں نے جنوبی کیرولینا کے ساحل پر مار گرایا۔ اس واقعے کو لائیو سٹریم کیا گیا۔

گرائی گئی حالیہ ’چیز‘ کا سب سے پہلے ہفتے کی شام مونٹانا میں پتہ چلا، لیکن ابتدائی طور پر اسے نظر انداز کیا گیا۔

پینٹاگان حکام نے بتایا کہ یہ اتوار کو ایک بار پھر ریڈار پر نمودار ہوا اور ہیورون جھیل کے اوپر سے گزر رہا تھا۔

امریکی اور کینیڈین حکام نے اتوار کو اس جھیل کے اوپر کچھ فضائی حدود بند کر دی تھی کیونکہ طیارے اس چیز کو روکنے اور شناخت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار کے مطابق یہ چیز آٹھ جہتی (Octagonal) تھی، جس  کے نیچے تاریں لٹک رہی تھیں، لیکن اس میں کوئی پے لوڈ نہیں تھا۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے ایک عہدیدار نے بتایا کہ یہ تقریباً 20 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا۔

دوسری جانب امریکی حکام اب بھی ایف -22 لڑاکا طیاروں کے ذریعے گرائے گئے دو دیگر اوبجیکٹس کی درست نشاندہی کی کوشش اور اس بات کے تعین کے لیے کام کر رہے ہیں کہ آیا چین اس کا ذمہ دار ہے یا نہیں، کیونکہ واشنگٹن کے بیجنگ کے بڑے پیمانے پر فضائی نگرانی کے پروگرام کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔

ہفتے کو کینیڈا کے علاقے یوکون پر گرائی گئی ایک چیز کو امریکی حکام نے اس غبارے سے نمایاں طور پر چھوٹا غبارہ قرار دیا تھا، جس کا سائز تین سکول بسوں کے برابر تھا اور اسے چار فروری کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

الاسکا کے دور افتادہ شمالی ساحل پر جمعے کو گرنے والی ایک اڑنے والی چیز زیادہ لمبوتری تھی اور اسے ہوائی جہاز کی ایک قسم کے طور پر بیان کیا گیا۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرنے والے حکام کے مطابق ان دونوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ ایک پے لوڈ تھا، جو یا تو ان سے جڑا ہوا تھا یا اسے گرا دیا گیا تھا۔

حکام فی الحال یہ نہیں بتاسکے کہ ان اشیا کو کس نے لانچ کیا۔ وہ ان کی حقیقیت جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ تینوں چیزیں امریکی میزائل حملے کے بعد بحر اوقیانوس میں گرنے والے مشتبہ جاسوس غبارے کے مقابلے میں سائز میں بہت چھوٹی، شکل میں مختلف اور کم اونچائی پر پرواز کر رہی تھیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ دیگر تین اشیا چین کے فضائی نگرانی والے غباروں کے بیڑے سے مطابقت نہیں رکھتیں، جن کا ہدف 40 سے زائد ممالک رہے اور کم از کم ٹرمپ انتظامیہ کے وقت تک موجود تھے۔

سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومر نے اے بی سی کے پروگرام ’دِز ویک‘ کو بتایا کہ امریکی حکام ملبہ اکٹھا کرنے کے لیے تیزی سے کام کر رہے ہیں۔

 انہوں نے ان اشیا کو غبارے کے طور پر بیان کرنے کے لیے شارٹ ہینڈ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ امریکی فوج اور انٹیلی جنس حکام معلومات جمع کرکے ایک جامع تجزیہ مرتب کر رہے ہیں۔

چک شومر نے اس جاسوسی پروگرام کے بارے میں بتایا، جسے انتظامیہ نے چین کی پیپلز لبریشن آرمی سے جوڑا ہے کہ ’سب سے اہم بات یہ ہے کہ چند مہینے پہلے تک ہمیں ان غباروں کے بارے میں علم نہیں تھا۔‘

آٹھ روز قبل ایف 22 طیاروں نے 60 ہزار فٹ کی بلندی پر امریکہ کے اوپر سے گزرنے والے ایک بڑے سفید غبارے کو مار گرایا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی حکام نے فوری طور پر چین کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ یہ غبارہ انٹیلی جنس سگنلز کا سراغ لگانے اور جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

 وائٹ ہاؤس کے حکام کا کہنا ہے کہ نگرانی کی بہتر صلاحیتوں سے اس کا سراغ لگانے میں مدد ملی۔

دوسری جانب چین کی وزارت خارجہ نے جاسوسی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ بغیر پائلٹ والا غبارہ ایک سویلین موسمیاتی فضائی جہاز تھا، جو راستے سے بھٹک گیا تھا۔

بیجنگ کا کہنا ہے کہ امریکہ نے اسے گرا کر ’حد سے زیادہ رد عمل‘ کا مظاہرہ کیا۔

اس کے بعد جمعے کو امریکہ اور کینیڈا کی مشترکہ تنظیم نارتھ امریکن ایرو سپیس ڈیفنس کمانڈ نے الاسکا کے علاقے ڈیڈ ہارس کے قریب ایک چیز کا سراغ لگا کر اسے مار گرایا۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسی شام این او آر اے ڈی نے الاسکا کے اوپر بلندی پر اڑنے والی ایک دوسری چیز کا سراغ لگایا۔

 یہ ہفتے کو کینیڈا کی فضائی حدود میں داخل ہوا تھا اور ایک دور افتادہ علاقے یوکون کے اوپر تھا جب وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اسے مار گرانے کا حکم دیا تھا۔

ان دونوں واقعات میں یہ چیزیں تقریباً 40 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہی تھیں جبکہ جس چیز کو اتوار کو گرایا گیا وہ 20 ہزار فٹ کی بلندی پر تھی۔

ان واقعات سے امریکہ اور چین کے درمیان سفارتی تناؤ بڑھ گیا ہے۔

بیجنگ کی امریکی نگرانی کی حد کے بارے میں سوالات اٹھے اور امریکی انتظامیہ کے ردعمل پر رپبلکن قانون سازوں کی طرف سے کئی دنوں تک تنقید کی گئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ