’مردم شماری میں ہمیں اپنے آبائی علاقوں کے بجائے کیمپ میں گنا جائے گا۔ جس سے ہمارے علاقوں کی آبادی کم ظاہر ہو گی اور یوں وہاں کے لیے وسائل مختص ہوں گے نہ ترقی ہو گی۔ تو کیا ہم ساری عمر ان کیمپوں میں ہی زندگی بسر کریں گے؟‘
یہ کہنا تھا شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک سول انجنیئر زاکم وزیر کا، جو گذشتہ آٹھ برس سے اپنے خاندان سمیت خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں (آئی ڈی پیز کے لیے) قائم سرکاری بکا خیل کیمپ میں رہائش پذیر ہیں۔
زاکم وزیر کے خاندان کو 2014 میں شمالی اور جنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کے نیتجے میں ہزاروں خاندانوں کے ساتھ اپنا گھر بار چھوڑ کر آئی ڈی پیز کے طور قریبی اضلاع میں پناہ لینا پڑی تھی۔
وزیرستان سمیت قبائلی اضلاع کے اکثر خاندان اب بھی یا تو کیمپوں یا بڑے شہروں میں زندگی بسر کر رہے ہیں جن میں بعض ایسے بھی ہے جو اپنے علاقوں کو واپس لوٹنا چاہتے ہیں لیکن سہولتوں کے فقدان کو رکاوٹ سمجھتے ہیں۔
زاکم وزیر اور ان کے ساتھ کمیپ میں رہنے والے دیگر افراد کو پاکستان بھر میں شروع ہونے والی مردم شماری پر اعتراض ہے کیونکہ متعلقہ قوانین کے مطابق موجودہ جائے رہائش پر چھ ماہ سے مقیم شہری کو اسی علاقے میں شمار کیا جاتا ہے۔
مردم شماری سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی مدد سے ہی حکومتیں تمام پالیسیاں بناتی ہیں۔
زاکم وزیر نے اعتراض اٹھایا کہ اگر انہیں شمالی وزیرستان کے بجائے کیمپ کے ضلع میں شمار کیا جاتا ہے تو حکومت ان کے آبائی علاقے میں وسائل کی فراہمی کیسے یقینی بنائے گی۔
’اگر ہمیں ہمارے علاقوں میں شمار نہیں کیا جائے گا تو یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا، ہمارے علاقے غیر ترقی یافتہ رہیں گے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم ساری عمر اسی کیمپ میں زندگی بسر کریں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ان کے آبائی ضلعے شمالی وزیرستان کے اکثر علاقے آبادی سے خالی ہیں کیونکہ وہاں کے اکثر خاندان قریبی شہروں میں بطور آئی ڈی زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔
’مردم شماری میں ایسا تاثر دیا جائے گا کہ ان علاقوں میں لوگ رہائش پذیر نہیں ہیں اس لیے وہاں وسائل کی فراہمی کی ضرورت نہیں رہے گی۔ لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ ان علاقوں میں بازار، مارکیٹیں اور گھر موجود ہیں، لوگ دوسری جگہوں کو منتقل ہو چکے ہیں اور انہوں نے واپس جانا ہے۔‘
زاکم وزیر کے خیال میں حکومت کو اس سلسلے میں قبائلی اضلاع کے لوگوں کو خصوصی رعایت دینا چاہیے اور آئی ڈی پیز کے طور کیمپوں میں مقیم ایسے افراد کو ان کے اپنے علاقوں کے رہائشیوں کے طور گنا جائے۔
’ہمیں اپنے علاقوں میں شمار کرنے سے ہمارے علاقوں کی صحیح آبادی سامنے آئے گی اور اسی تناسب سے وہاں وسائل فراہم کیا جانا ممکن اور فائدہ مند ہو گا۔
’ہمارے علاقوں میں ترقی ہو گی تو وہاں سے نقل مکانی کرنے والے خاندان واپس اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔‘
شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے بانی صدر محسن داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اس مسئلے کو گھبیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں ادارہ شماریات نے مردم شماری کے فارم میں بے گھر افراد کے لیے الگ خانہ شامل کرنے کا وعدہ کیا تھا تاہم اس پر ابھی تک عمل نہیں ہو پایا ہے۔
محسن داوڑ نے اس مسئلے کا عارضی حل بتاتے ہوئے کہا کہ اپنے آبائی علاقوں سے باہر رہنے والوں(آئی ڈی پیز) کو کچھ دنوں کے لیے صرف مردم شماری کی رجسٹریشن کی غرض سے وہاں واپس جانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
’ہم نے انہیں کہا کہ آپ کچھ دنوں کے لیے واپس جائیں تاکہ آپ کو وہاں کو کوڈ ملے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومتی مؤقف
پاکستان ادارہ شماریات کے اہلکار سرور حبیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان میں سرکاری طور پر بے گھر افراد کا سٹیٹس (وزارت سیفران جئ جانب سے) ختم کر دیا گیا ہے اور اب جو شہری چھ ماہ یا اس سے زیادہ عرصے سے جہاں رہا ہے وہیں گنا جائے گا۔
تاہم سرور حبیب نے بتایا کہ وزیرستان میں امن عامہ کی صورت حال کی وجہ سے بعض خاندان اب بھی بے گھر ہیں۔
’ان کے مسئلے کو ہم دیکھ رہے ہیں اور اس سلسلے میں ایک ویک کمیٹی قائم کی گئی جو شکایات سن کر حل نکالے گی۔‘
بے گھر خاندان
پروانشل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ترجمان احسان داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 17 ہزار سے زیادہ خاندان بطور آئی ڈی پیز رجسٹر ہیں جن میں سے دو ہزار سے زیادہ بنوں کے بکاخیل کیمپ میں رہ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیرستان کے 17 ہزار خاندانوں میں سے 11 ہزار حالیہ دنوں میں افغانستان سے واپس لوٹے ہیں۔
احسان داوڑ کا دعویٰ تھا کہ 2014 کے فوجی اپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے خاندانوں میں سے 96 فیصد واپس اپنے علاقوں کو جا چکے ہیں تاہم ابھی بہت سے غیر رجسٹرڈ افراد وزیرستان سے باہر دوسرے شہروں میں مقیم ہیں۔