’بیلٹ اینڈ روڈ‘ کیا چینی بینکوں کو بچانے کا منصوبہ ہے؟

ایک تحقیق کے مطابق چین نے 22 ملکوں کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے کھربوں ڈالر خرچ کیے ہیں اور ان ملکوں کو قرض واپس کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

17 مئی 2017 کی اس تصویر میں چینی صدر شی جن پنگ اور ارجنٹائن کے صدر موروسیو مارسی بیجنگ کے گریٹ ہال آف پیپلز میں ایک اجلاس کے دوران۔ ارجنٹائن چین سے 111 ارب ڈالر کا قرض لے چکا ہے(اے ایف پی)

منگل کو شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق چین نے 2008 اور 2021 کے درمیان 22 ترقی پذیر ملکوں کی امداد پر 240 ارب ڈالر خرچ کیے۔

حالیہ برسوں میں اس رقم میں اضافہ ہو گیا ہے کہ کیوں کہ ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر اخراجات کی وجہ سے مزید ملکوں کو قرضے کی واپسی میں مشکل کا سامنا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عالمی بینک، ہارورڈ کینیڈی سکول، ایڈ ڈیٹا اور کیل انسٹی ٹیوٹ فار دا ورلڈ اکانومی کے محققین کی رپورٹ کے مطابق امداد کی شکل میں تقریباً 80 فیصد قرضہ 2016 اور 2021 کے درمیان دیا گیا۔

یہ قرض حاصل کرنے والے ممالک میں خاص طور پر ارجنٹائن، منگولیا اور پاکستان سمیت کئی اور درمیانی آمدنی والے ممالک شامل ہیں۔

چین نے ترقی پذیر ممالک میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے سینکڑوں ارب ڈالر کا قرضہ دیا لیکن 2016 سے چین نے قرضہ دینے میں بتدریج کمی کر دی کیوں کہ بہت سے منصوبے متوقع مالی فائدہ دینے میں ناکام رہے۔

عالمی بینک کے سابق چیف اکانومسٹ اور تحقیق کے ایک مصنف کارمن رین ہارٹ نے کہا کہ’بیجنگ بالآخر اپنے ہی بینکوں کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بین الاقوامی بیل آؤٹ قرضہ دینے کے خطرناک کاروبار میں شامل ہو گیا ہے۔‘

اس تحقیق میں بتایا گیا کہ قرضوں کی ادائیگی کے مسئلے سے دوچار ممالک کو 2010 میں پانچ فیصد سے بھی کم قرضہ دیا گیا جب کہ 2022 میں یہ قرضے بڑھ کر 60 فیصد ہو گئے۔

ارجنٹائن کو 111.8 ارب ڈالر کے ساتھ سب سے زیادہ قرضہ دیا گیا۔ اس کے بعد پاکستان کو 48.5 ارب ڈالر اور مصر کو 15.6 ارب ڈالر ملے۔ نو ممالک کو ایک ارب ڈالر سے بھی کم رقم ملی۔

قرضوں کی ادائیگی کے مسئلے سے دوچار ممالک کی مدد کے لیے چین نے پیپلز بینک آف چائنا (پی بی او سی) کے ذریعے 170 ارب ڈالر فراہم کیے ہیں۔ یہ رقم سوری نام، سری لنکا اور مصر جیسے ممالک کو دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے علاوہ سرکاری چینی بینکوں نے ادائیگیوں کے توازن کو سہارا دینے کے لیے 70 ارب ڈالر کے قرضے دیے۔ جس کے بعد دونوں اقسام کے 140 ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کی مدت میں توسیع کر دی گئی۔

مذکورہ تحقیق میں کچھ مرکزی بینکوں پر تنقید کی گئی ہے جو ممکنہ طور پر پی بی او سی سویپ لائنز کا استعمال کرتے ہوئے اپنے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے اعداد و شمار کو مصنوعی طور پر بڑھا رہے ہیں۔

رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک اور امریکہ میں ولیم اینڈ میری کالج کی ریسرچ لیب ایڈ ڈیٹا کے ڈائریکٹر بریڈ پارکس نے کہا کہ چین کا امدادی قرضہ ’غیر شفاف اور غیر مربوط ہے۔‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیل آؤٹ قرضے بنیادی طور پر درمیانی آمدنی والے ممالک پر مرتکز ہیں۔ چینی بینکوں کی بیلنس شیٹس کو درپیش خطرے کے پیش نظر یہ ملک چینی قرضوں کا 80 فیصد حصہ لیتے ہیں۔ چین کی جانب سے کم آمدنی والے ممالک کو رعایتی مدت اور میچورٹی میں توسیع کی پیشکش بھی کی جاتی ہے۔

چین زیمبیا، گھانا اور سری لنکا سمیت مختلف ممالک کے ساتھ قرضوں کی تنظیم نو پر بات چیت کر رہا ہے اور قرضے دینے کے عمل کو روکنے پر اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے جواب میں چین نے عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پر زور دیا ہے کہ وہ بھی قرضوں کی ادائیگی میں سہولت کی پیشکش کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا