کیا انسانی جان کی قیمت آٹے کا ایک تھیلا ہے؟

مطالعۂ پاکستان میں لکھا ہے کہ ہم ایک زرعی ملک ہیں، تو پھر اس ملک میں غریبوں کے لیے وافر گندم کیوں نہیں موجود؟

29 مارچ 2023 کو ایک شخص پشاور میں وزیرِ اعظم کی مفت آٹا سکیم کے تحت آٹے کے تھیلے اٹھائے جا رہا ہے (اے ایف پی)

روٹی بھی کیا چیز ہے زیادہ کھا لو تو ہضم نہیں ہوتی کم کھاؤ تو نیند نہیں آتی اور اگر نہ ملے تو زندگی نہیں گزرتی۔

امیر تو ناشتے میں بریڈ، جام، جوس اور نہ جانے کیا کیا لوازمات کھاتے ہیں، لیکن غریب عوام صرف روٹی کھاتے ہیں۔ ناشتے میں روٹی، دوپہر کے کھانے میں روٹی، بہت عیاشی ہو تو چائے کے ساتھ نان اور رات کو پھر وہی روٹی پیٹ کے دوزخ کی آگ کو ٹھنڈا کرتی ہے۔

پر حالات اتنے بھی اچھے نہیں کہ غریب عوام پیٹ بھر کر کھانا کھا سکیں۔ عام طور پر ایک بار صبح روٹی ملتی ہے دوسری بار رات کو، جس کو نمک، پیاز، اچار، پانی یا ترکاری کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔

عوام غربت کی سطح سے اتنے نیچے چلے گئے ہیں کہ روٹی بھی پانی میں بھگو کر کھاتے ہیں کہ نگلنے میں آسانی ہو۔

لیکن اب وہی روٹی بھی عوام کے لیے نایاب ہو گئی ہے اور وہ آٹے کے تھیلوں کے حصول کے زندگی کی بازی لگا رہے ہیں۔ گذشتہ چند دونوں میں کئی ایسی ہلاکتوں کی خبریں آ چکی ہیں کہ لوگ آٹے کی سرکاری ٹرکوں کے گرد کھڑی قطاروں میں کچلے گئے۔

اسی آٹے روٹی کے چکر میں اشرافیہ نے پاکستانی عوام کو منظم کرپشن کر کے الجھایا ہے۔ اگر عوام کے وسائل یوں لوٹے نہ جاتے تو آج عوام آٹے کی لائنوں میں دھکے نہ کھا رہے ہوتے۔

عوام کے وسائل سے حکمران اپنے محل بنا لیتے ہیں، مہنگی گاڑیوں، پرتعیش ضیافتوں اور زندگی کی رنگینوں کا لطف اٹھاتے ہیں۔ اسی لیے غریب یہاں سسک کر جیتے ہیں اور امرا زندگی کے مزے لوٹتے ہیں۔

دیگر ممالک میں رمضان آتا ہے تو ہر چیز سستی ہو جاتی ہے اور سیلز لگ جاتی ہیں۔ پاکستان میں اس کے برعکس ہے کہ ہر چیز بازار سے غائب ہو جاتی ہے اور بعد میں دگنے داموں بکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ وہ پہلے بھی غریب تھے وہ اب بھی غریب ہیں۔ اب تو آٹے کے حصول کی جنگ میں انک ی جانیں جا رہی ہیں۔

رمضان، طویل قطار، روزہ، آٹے کا انتظار، جب ٹرک آ جائے تو دھکم پیل ضعیف شہری تو پیروں تلے کچلے جاتے ہیں اور آٹے کی جنگ ان کو موت کے منہ میں پہنچا دیتی ہے۔ ان کے لواحقین کو اس دن انتظامیہ کی طرف سے آٹا مل جاتا ہے۔ کیا ایک آٹے کے تھیلے کی قیمت ایک انسانی جان ہے؟

میرے کچھ سوالات ہیں: جب ٹویٹ کرنے پر ویگو ڈالا گھر پہنچ سکتا ہے، جب بجلی پانی سوئی گیس کا بل گھر آ سکتا ہے تو آٹا غریبوں کے گھر کیوں نہیں آ سکتا۔

جب سیاست دان ووٹ مانگنے گھر گھر جا سکتے ہیں تو ووٹ ملنے کے بعد آٹا غریب ووٹر کے گھر کیوں نہیں پہنچ سکتا؟ بالکل پہنچ سکتا ہے رمضان کا راشن پیکج بنا کر گھر کیوں نہیں پہنچایا جا سکتا؟

انتظامیہ محلے کی کمیٹی، مسجد اور حکومت غریب لوگوں کی نشاندہی کر کے ان کی مدد کر سکتی ہے۔

کرپشن اربوں روپے کی ہوتی ہے، حکومتی اخراجات بھی کروڑوں میں ہے، بس جب غریبوں کے بات آتی ہے تو خزانے خالی ہیں۔ ان کو بلا کر گھنٹوں دھوپ میں بھوکا پیاسا کھڑا رکھا جاتا ہے، ان کی تذلیل کی جاتی ہے، ان کو مارا پیٹا جاتا اور آخر میں فوٹو شوٹ کر کے ان کی عزت نفس کچل دی جاتی ہے۔

پھر یہ فوٹو شوٹ میڈیا کی زینت بنتے ہیں، غریبوں کے نام پر امداد اکٹھی کی جاتی ہے اور وہ اپنی جیب میں ڈال لی جاتی ہے۔ غریبوں کو کچھ نہیں ملتا، ان کو آٹے کے نام پر موت ملتی ہے۔ پہلے بھی سستے آٹے کے نام پر لوگ کچل گئے جس میں ایک غریب شخص اپنی جان سے گیا تو اس کی لاش کی ساتھ کوئی آٹا رکھ گیا۔

یہ تصویر دیکھ کر میرا دل چیر گیا۔ اس کو اپنی زندگی میں سستا آٹا نہیں ملا، لیکن اس کی لاش کے ساتھ ایک تھیلا کوئی رکھ گیا تو تصویر بنا کر سوشل میڈیا پر پھیلا دی گئی۔

اب رمضان المبارک میں بھی غریبوں کے ساتھ وہ ہی سلوک ہو رہا ہے۔ مفت آٹا سستا آٹا لوگوں کی زندگیاں نگل رہا ہے۔ ہم ایک زرعی ملک ہیں، مطالعہ پاکستان میں تو یہ لکھا ہے تو اس ملک میں غریبوں کے لیے وافر گندم کیوں نہیں موجود ان کو مفت اناج کیوں نہیں دیا جاتا۔

کوئی راشن کارڈ بنا دیں کہ وہ کسی بھی سٹور سے مہینے میں دو سے تین بار آٹا مفت حاصل کر سکیں۔ جیسے ووٹر لسٹ بنی ہوتی ہیں، اس طرح غریب، ضعیف، بیمار اور معذور افراد کی بھی فہرستیں بنا دی جائیں اور ان کو گھر پر آٹا فراہم کر دیا جائے۔

پر ایسا ہو گا نہیں، کیونکہ غریبوں کا کسی کو احساس نہیں ہے۔ اگر احساس ہوتا تو لوگ یہ نہ مرتے ابھی بھی جب میں یہ سطور لکھ رہی ہوں ایک خاتون آٹے کی حصول کی قطار میں اپنی زندگی ہار گئی۔ پراشرافیہ کے کسی شہباز، عمران، مریم اور بلاول کو فرق نہیں پڑے گا۔

ویسے کہنے کو ہم زرعی ملک ہیں لیکن عوام کے پاس کھانے کو اناج نہیں ہے۔ یہ آٹا غریب عوام کے گھر بھی پہنچایا جا سکتا ہے ایسے بھیڑ بکریوں کی طرح ان کو جمع کرکے ان کی تذلیل کرنا ان پر امداد پھینکنا یہ انسانیت کی تذلیل ہے۔

ریاست کی یہ ذمہ داری ہے عوام کو اور کچھ نہ دے، لیکن صرف دو وقت کی روٹی ان کو عزت سے دے دے۔

لنگر خانے دوبارہ سے آباد کریں، دیوارِ مہربانی دوبارہ سے بنائیں، فوڈ بینک کھولیں یا یوٹیلیٹی سٹور پر مفت اناج والے کاؤنٹر بنا دیں جو کو کم آمدنی والے لوگ شناختی کارڈ دکھا کر لے سکیں۔ عوام کو آٹا دیں، موت نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ