گلوبل وارمنگ: ایشیائی ممالک کیا اقدامات کر رہے ہیں؟

دنیا کے تقریباً 30 فیصد رقبے والا یہ برِاعظم ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 4.75 ارب انسانوں کا مسکن ہے جو دنیا کی آبادی کا تقریباً 60 فیصد بنتا ہے۔

26 اگست 2022 کی اس تصویر میں بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں سیلاب سے متاثر ہونے والا ایک شخص متاثرہ علاقے سے بچوں کو محفوظ مقام کی جانب لے جاتے ہوئے(فوٹو: اے ایف پی)

گذشتہ اور اس سے پیوستہ اپنے تینوں مضامین میں ہم نے گلوبل وارمنگ کی وجوہات، نقصانات، اقوامِ متحدہ کا کردار اوراس عفریت سے چھٹکارا پانے یا کم از کم اس کی تیزی میں کمی کے لیے کئی ترقی یافتہ ممالک کی اپنے طور پر کاوشوں کا ذکر کیا تھا۔

آخر میں اس بات کا بھی اعادہ کیا تھا کہ اپنے اگلے مضامین میں پسماندہ اور ترقی پزیر ممالک جیسے کہ ایشیائی ممالک اور بالخصوص پاکستان میں اس حوالے سے ہونے والی پیش رفت پر بات کی جائے گی۔

یہاں میں عالمی حدت میں اضافے کے حوالے سے ایشیائی ممالک سے اپنے خصوصی برتاو کی وضاحت کرتا چلوں تاکہ قاری کسی مخمصے میں پڑنے یا دور کی کوڑی لانے کی بجائے براہِ راست اس کی بنیادی وجہ تک باآسانی پہنچ سکیں۔

15 نومبر 2022 کو اقوامِ متحدہ کے تخمینہ شدہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی کُل آبادی آٹھ ارب تک پہنچ چکی ہے۔

اب تمام برِاعظموں کی آبادی کا اندازہ لگانے کے جھنجھٹ میں پڑے بغیر سیدھا آجاتے ہیں برِاعظم ایشیا کی جانب۔ دنیا کے تقریباً 30 فیصد رقبے والا یہ برِاعظم ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 4.75 ارب انسانوں کا مسکن ہے ، جو کہ دنیا کی آبادی کا تقریباً 60 فیصد بنتا ہے۔

تو اب آپ خود ہی اندازہ لگایئے کہ اقوامِ متحدہ کے مطابق 48 ممالک کا یہ برِاعظم جس میں دنیا کے دو ایسے ملک چین اور انڈیا بھی شامل ہیں جن کی مجموعی آبادی تین ارب سے زیادہ ہےتو اُسے خصوصی توجہ کیوں حاصل نہ ہو۔

مانا کے تمہید کچھ زیادہ طویل ہوگئی لیکن بقول یوسفی عموماً لوگ زیادہ دعائیں مانگنے کے لالچ میں نماز کو مختصر یا جلدی ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں پر یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔

 خیر اب اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ یعنی گلوبل وارمنگ کے حوالے سے ہمارے خطے یعنی ایشیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔

اکثر ترقی پزیر ممالک اور پھر سے بالخصوص ایشیائی ترقی پزیر ممالک میں زیادہ تر وہی قوانین موجود ہیں یا وہی وعدے وعید کیے گئے ہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہیں مگر ہمارے ان ملکوں میں جو بنیادی مسئلہ ہے وہ ان پر عمل درآمد کا ہے، جس کے بہت سے عوامل میں اعلیٰ اور عوامی سطح دونوں میں سیاسی، معاشی اور سماجی کم فہمی اور عدم دلچسپی شامل ہے۔

یہاں ہم چین اور جاپان کا ذکر نہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے کیوں کہ ان دونوں ہی کا ایشیا سے تعلق ہونے کے باوجود ترقی پزیر ممالک میں شمار ہوتا ہے اور دونوں ہی اپنے اپنے طور پر نہ صرف موسمیاتی تبدیلیوں کی شدت سے آگاہ ہیں بلکہ اس سلسلے میں بہت سے کئی ایسے کام بھی کر رہے ہیں جن کی تقلید کی جانی چاہیے۔

چلیں اب کچھ ذکر ہوجائے انڈیا کا۔ چین اور امریکہ کے بعد ہندوستان گرین ہاوس گیسوں کا تیسرا سب سے بڑا اخراج کرنے والا ملک ہے۔

 2020 میں انڈیا کی موسمیاتی تبدیلی کی تشخیصی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس صدی کے اختتام تک اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو ملک کا اوسط درجہ حرارت 4.4 ڈگری سیلسیس بڑھنے کا امکان ہے۔

انڈین حکومت نے پیرس معاہدے کے تحت بہت سے تحریری وعدے کیے ہیں جن میں2070 تک گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کو ملک سے مکمل طور پر ختم کرنے کا وعدہ بھی شامل ہے جو کہ دوسرے ممالک کی جانب سے مقررکردہ تاریخ سے 10 سے 20 سال زیادہ ہے، جبکہ پیرس معاہدے میں اس ہدف کو 2050 تک حاصل کرنے پر زور دیا گیا تھا۔

انڈیا میں بڑھتی ہوئی گرمی کی شدت جو کہ کچھ عرصہ قبل 48 سے 51 ڈگری سیلسیس تک پہنچ گئی تھی نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں اور فصلوں تک کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوئی۔

موسلا دھار اور مستقل بارشیں، سمندر میں طغیانی اور پینے کے پانی کی کمی یہ وہ دیگر مسائل ہیں جن کا انڈیا کو سامنا ہے۔

انڈیا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا توانائی استعمال کرنے والا ملک ہے اور اس نے 2021 میں اپنی 80 فیصد سے زیادہ طلب کو کوئلے اور تیل سے پورا کیا تھا۔

اب آپ اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ گرین ہاوس گیسوں کا کتنا اخراج ہوا ہوگا۔ انڈیا کے سرکاری تخمینوں کے مطابق اگلی دہائی میں کوئلے کی ضرورت میں 50 فیصد اضافے کا بھی امکان ہے۔

ان تمام باتوں کا تفصیل سے ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کہ پڑھنے والوں کو سمجھ آ سکے کہ ترقی پزیر ممالک میں معاملے کی سنجیدگی کی سمجھ حاصل ہونے اور قوانین کی موجودگی کے باوجود کیوں ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔

 بقول شاعرِ مشرق علامہ اقبال

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

شاید ہم پر اردو شاعری کا بہت اثر ہے جو ہم عقل کو حقیر و ادنیٰ سمجھ کر عشق و دل کو عقل پر فوقیت دینے لگتے ہیں۔

لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ نمرود کی آگ صرف ان کے لیے گلستان بنتی ہے جن کا دل عشقِ حقیقی میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ گھوڑے کی لگام کو کھونٹے سے باندھے بغیر اس کے چوری نہ ہونے کا یقین کج فہمی کے سوا اور کچھ نہیں۔

ہاں تو ذکر ہو رہا تھا گلوبل وارمنگ اور انڈیا کے حالات کا۔ ڈیڑھ ارب کی آبادی کا یہ ملک جہاں وسائل کی تنگی، مسائل کی بہتات، شرح خواندگی میں کمی، حکومت کی امیری اور عوامی غربت کا امتزاج ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا پر پڑنے والے اچھے یا بُرے دونوں طرح کے اثرات کا کسی حد تک مرکز ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہاں بھی اس معاملے کی سنگینی کا وہ ادراک نظر نہیں آتا جس کی توقع کی جا رہی تھی، تو آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ اس کے ارد گرد واقع اور اس سے تجارتی یا دیگر تعلقات استواررکھنے والے ممالک پر اس غیر سنجیدگی کے کیسے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ اب تک انڈیا عالمی حدت میں اضافے کی ہولناکیوں کا شکار نہیں ہوا بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ تواتر کے ساتھ جانی اور مالی نقصانات اٹھانے کے باوجود وہاں قوانین اور عملی اقدامات کے بیچ واضح فاصلہ نظر آتا ہے۔

 حالاںکہ انڈیا نے بھی پیرس معاہدے کے تحت کم و بیش وہی تحریری وعدے کیے ہیں جو دوسرے ممالک نے بھی کیے ہیں۔ اب ذرا ایشیائی خطے کے اس ملک کا ذکر ہو جائے جو آبادی کے لحاظ سے انڈیا کے بعد اور پاکستان سے پہلے ہے یعنی انڈونیشیا۔

اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس ملک میں مقیم افراد کی نفری تقریباً 28 کروڑ ہے اور یہ وہی ملک ہے جو گلوبل وارمنگ کے خطرے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے جسے ہر قسم کے سیلاب اور شدید گرمی کا سامنا ہے۔

انڈونیشیا میں خاص طور پر سمندری سطح میں اضافے کے خدشات ہیں۔ یہ ملک سمندری سطح سے نیچے ساحلی علاقوں میں رہنے والی آبادی کے تناسب سے دنیا کا پانچواں ملک ہے۔

گلوبل وارمنگ سے اس ملک میں صاف پانی کی دستیابی کے مسائل، قدرتی آفات کے خطرات میں اضافہ، خاص طور پر ساحلی آباد ی کوغذائیت اور صحت کے مسائل اور سب سے بڑھ کر جان کے لالے پڑ سکتے ہیں۔

انڈونیشیا نے بھی پیرس معاہدے کے تحت کم و بیش وہی وعدے کیے ہیں جو دیگر ممالک نے کیے تھے لیکن ان وعدوں میں انڈونیشیا نے اپنے ملکی حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایمان داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ جس حد تک ہم سے ممکن ہوا ہم کریں گے لیکن مزید اقدامات کے لیے ہمیں دیگر ممالک کی مدد درکار ہو گی۔

انڈونیشیا نے کیا اقدامات اٹھائے اور امیر ممالک نے کتنی مدد کی یہ بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔

کہتے ہیں دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے لیکن جس ملک میں لوگوں کی زبان چھاچھ سے جل جاتی ہو وہ بھلا اب کسے پھونکیں گے اور کیا پئیں گے۔

 یہاں میں بات کررہا ہوں اپنے ملک پاکستان کی جس کے پاس لامحدود وسائل تو موجود ہیں لیکن خود ساختہ مسائل کا بھی انبار لگا ہوا ہے۔

اگلے مضمون میں تفصیل سے ذکر ہوگا پاکستان کو گلوبل وارمنگ سے درپیش خطرات اور اس سے بچنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا۔

بقول شخصے یہ وہ ملک ہے جہاں مفلوک الحال شخص سڑک پر بیٹھ کر خوش قسمتی کے تعویذ بیچتا ہے اور لوگ اس بابا کی بدبختی دیکھنے کے باوجود اس سےتعویذ خرید بھی لیتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ