’نیا‘، ’پرانا‘ اور ’ہمارا‘ پاکستان

اگر یہ ہمارا پاکستان بھی ہو تو ہمارے حقوق، خواہشات اور اظہار رائے کا بھی خیال رکھا جائے، پر یہاں تو صرف ان کی مرضی چلتی ہے جن کا یہ پاکستان ہے۔

اگر یہ ہمارا پاکستان بھی ہو تو ہمارے حقوق، خواہشات اور اظہار رائے کا بھی خیال رکھا جائے، پر یہاں تو صرف ان کی مرضی چلتی ہے جن کا یہ پاکستان ہے (اے ایف پی)

بچپن میں ہم ایک نغمہ سنا کرتے تھے، ’تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے،‘ جو بہت اچھا لگتا تھا، اور میں یہ نغمہ بہت شوق سے گایا کرتی تھی۔

اس وقت یہی لگتا تھا کہ یہ ہم سب کا پاکستان ہے اور ہمارا پاکستان ہے۔ مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں بھی لکھا ہوا تھا کہ عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں اور عوام کی آرا اور فیصلہ مقدم ہے۔ تو میرے جیسے طالب علم واقعی ہی اس کو حقیقت ماننے لگ گئے۔

پر کتابوں اور نغموں کی دنیا الگ ہے اور حقیقی دنیا سے بالکل مختلف ہے۔ تقریروں اور تحریروں کے برعکس عوام کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ نصاب میں ہمارے ذہنوں میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ طاقت کا مرکز عوام ہیں پر اصل میں یہ سب نہیں ہوتا۔ نصاب اصل زندگی کی حقیقتوں سے بہت دور ہے۔

مطالعہ پاکستان میں درج ہے کہ پاکستان زرعی ملک ہے، پاکستان خوشحال ملک ہے، یہاں ہر طرف امن و امان ہے، عوام آسودہ ہیں، پاکستان میں آئین کی بالادستی ہے یہ اسلامی جمہوری ملک ہے یہ ایک آزاد ملک ہے۔ پر کیا ایسا ہے اس سوال کا جواب اپنے اپنے دل میں خاموشی سے دے دیں، زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں۔ زیادہ بولنے والوں کو گولی مار دی جاتی ہے یا حوالات کی سیر کروا دی جاتی ہے۔

طاقت کا سرچشمہ صرف اشرافیہ یا کچھ خاندان ہیں جنہوں نے عوام کی تقدیر کے فیصلے اپنے ذمے لے رکھے ہیں۔ وہ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں ان کے مطابق وہ ٹھیک ہوتا ہے، چاہیے اس سے ملک کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے۔ اگر کوئی اس اختلاف کرے تو اس کو غدار اور باغی کہا جاتا ہے۔

عوام اگر ایک ٹویٹ بھی کریں تو ان کو اٹھا لیا جایا جاتا ہے، ان سے زبردستی معافی منگوائی جاتی ہے اور ویڈیو پھیلا دی جاتی ہے۔ اشرافیہ کچھ بھی کریں ان کو کچھ نہیں کہا جاتا کیوں کہ وہ خود کو قانون آئین سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ 

جن لوگوں کو ہم بائیں بازو کا لبرل سمجھتے تھے یا اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھتے تھے وہ تو بالکل بھی ایسے نہیں تھے۔ پی ڈی ایم کی محبت میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ الیکشن نہ ہونے کے حوالے سے موثر مہم چلا رہے ہیں۔

اگر یہ سب خود کو جمہوریت کا داعی کہتے رہے ہیں تو الیکشن سے فرار کیوں؟ اب کیا ہو گیا الیکشن ہو جائیں اس سے راہ فرار کیوں اختیار کر رہے ہیں۔ سب اپنے اپنے مطابق جمہوریت آئین کی تشریح کر رہے ہیں۔ اس وقت ہمیں یہ بتایا گیا کہ الیکشن نہ کروانے کے کتنے فوائد ہیں۔

ہم سب بھی حیران ہیں جن کی ساری زندگی سویلین سپرمیسی اور جمہوریت کا نعرہ لگاتے گزری وہ اب کہہ رہے ہیں کہ عدالتیں ٹھیک فیصلے نہیں کر رہیں اور الیکشن ابھی نہیں ہو جانے چاہییں۔ تو جناب جمہوریت صرف پی پی پی اور مسلم لیگ سے نہیں بنی ہوئی، اس میں اور جماعتیں اور عوام کا ووٹ بھی شامل ہے۔

پاکستان کا آئین کہتا ہے اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 دن کے اندر انتخابات کروانے ہوتے ہیں۔ پر یہاں تو نگران حکومت نے ایسے پڑاؤ ڈال لیا ہے جیسے بہت سال حکومت کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔

نگران حکومت کا کام الیکشن کروانا ہے اور اس کے علاوہ ان کا کوئی کام نہیں ہے۔ تاہم نگران حکومت جہاں ایک طرف میلے کروا رہی ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف کے کارکنان پر ڈنڈے بھی برسا رہی ہے۔ لوگوں کو گھروں سے بھی اٹھا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کا ایک کارکن لاپتہ ہوتا ہے، وہ واپس آتا ہے تو دوسرا اٹھا لیا جاتا ہے۔ ان کی بیویاں روتے ہوئے سوشل میڈیا پر دہائی دیتی ہیں یا سپریم کورٹ کو لکھتی ہیں کیونکہ ٹی وی چینلز پر یہ سب نشر کرنا منع ہے۔

طاقت کی ان لڑائیوں میں ہم عورتیں بہت تکلیف اٹھاتی ہیں، چاہیے وہ ماں کی صورت ہو یا بیوی کی شکل میں ہو۔ انصاف کی لڑائی اس کے کندھوں پر آ جاتی ہے۔ اب اس وقت پی ڈی ایم، لبرلز اور مخصوص میڈیا نے یہ ضد لگا لی ہے کہ الیکشن ابھی نہیں ہو سکتے، جب کہ آئین کہتا ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں الیکشن ہونا چاہیے۔

انہی عدالتوں کے احترام میں عمران خان گھر چلے گئے تو شہباز شریف عدلیہ کے احترام کے بجائے اس کو دو اداروں کے درمیان لڑائی کا سبب کیوں بنا رہے ہیں؟ نواز شریف خود کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ گئے تھے اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالت کا حکم نہ ماننے پر سزا سنائی گئی۔ یوں وہ پارلیمان کی رکنیت سے نااہل ہوئے اور وزیراعظم کے عہدے سے برطرف ہو گئے۔

اب کیا شہباز شریف کی قسمت میں بھی یہ لکھ دیا گیا ہے کیونکہ نواز شریف اور مریم نواز تو موجودہ حکومت سے خوش نہیں ہیں۔ گیلانی صاحب نے بھی آصف علی زرداری کے کیس کے حوالے سے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا تھا تو معزول ہوئے۔ اسی طرح شہباز شریف بھی نہ الیکشن کروانے کا فیصلہ مان رہے ہیں نہ ہی الیکشنز کے لیے فنڈز جاری کر رہے ہیں۔ اس طرح تو وہ بھی توہین عدالت کے مرتکب ہو کر گھر جا سکتے ہیں۔

شاید اس کا فائدہ ان کے بھائی اور بھتیجی کو ہو، اور وہ اکیلے حکمرانی کے خواہش مند ہوں۔ شہباز شریف نے بہت زور لگایا کہ ان کا بیٹا پنجاب پر حکمرانی کرے، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ حمزہ شہباز کی سیاست بہت پیچھے رہ گئی اور مریم نواز بہت آگے نکل گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہر ممکن حیلے بہانے کیے جا رہے کہ الیکشن نہ کروائے جائیں، کبھی فنڈز کی کمی کبھی افواج کی سرحد پر ڈیوٹی، تو کبھی قانون سازی کا کہہ کر الیکشن میں تاخیر کی جا رہی ہے، کبھی مردم شماری کا بہانہ کیا جا رہا ہے۔

اس پر عدالت نے کہا اگر فوج مصروف ہے تو نیوی اور ایئر فورس کو بلا لیا جائے اور اگر پیسے کم ہیں تو ہماری تنخواہوں میں سے کاٹ لیے جائیں۔ پر حکومت پھر بھی نہ مانی اور جلدی سے سینیٹ میں قومی اسمبلی چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ساتھ کرانے کی قرارداد منظور کر لی، پھر قومی اسمبلی میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کے لیے 21 ارب دینے کا بل مسترد کر دیا۔

الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی کہ انہیں 21 ارب نہیں ملے۔ اب عدالت نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو کہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ عدالت آئین کی بالادستی کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کروائے گی۔ عوام کی تو خواہش ہے کہ جلد سے جلد الیکشن ہو لیکن حکومت اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتی ہے۔

سپریم کورٹ آئین کے مطابق فیصلے کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کو عوام میں بہت پذیرائی ملی۔ ’ہم آئین کے ساتھ ہیں‘ اس وقت بھی ٹوئٹر پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کے مطابق عدلیہ اس وقت پاکستانی عوام کے جمہوری اور آئینی حقوق کے لیے فیصلے صادر کر رہی ہے۔

تاہم 90 دن ہونے کے باوجود اب تک الیکشن نہیں ہوئے اور ابھی آگے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے کہ تاخیر کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی، کیونکہ اشرافیہ ابھی موجودہ حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ میرا پاکستان ہے یا تیرا پاکستان ہے، پرانا پاکستان ہے یا نیا پاکستان ہے، کیا یہ ہمارا پاکستان ہے؟

اگر یہ ہمارا پاکستان بھی ہو تو ہمارے حقوق، خواہشات اور اظہار رائے کا بھی خیال رکھا جائے، پر یہاں تو صرف ان کی مرضی چلتی ہے جن کا یہ پاکستان ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ