انگور اڈہ کے بطور تجارتی روٹ فوائد کیا ہیں؟

انگور اڈہ بطور ایکسپورٹ روٹ منظوری سے قبل افغانستان اور پاکستان کے مابین ضلع خیبر میں طورخم، ضلع کرم میں خرلاچی اور شمالی وزیرستان میں غلام خان بارڈر بطور ایکسپورٹ لینڈ روٹ مستعمل ہیں۔

18 اکتوبر 2017 کو جنوبی وزیرستان میں افغانستان کے ساتھ سرحد پر انگور اڈا چوکی  کے قریب سرحدی باڑ (روئٹرز)

پاکستان کی وفاقی کابینہ نے انگور اڈہ بارڈر کو افغانستان اور وسطی اشیائی ممالک کے لیے بطور ’ایکسپورٹ لینڈ روٹ‘ قرار دینے کی منظوری دے دی ہے۔

انگور اڈہ کی سرحد جنوبی وزیرستان میں افغانستان کے ساتھ متصل ہے۔

ماہرین معیشت کے مطابق اس فیصلے سے دونوں ممالک کی تجارت کو خاطرخواہ فائدہ ہو گا۔

قبل ازیں افغانستان اور پاکستان کے مابین ضلع خیبر میں طورخم، ضلع کرم میں خرلاچی اور شمالی وزیرستان میں غلام خان بارڈر بطور ایکسپورٹ لینڈ روٹ مستعمل ہیں۔

طورخم، غلام خان اور خرلاچی بارڈر  پر اربوں ڈالر کی مصنوعات اٖفغانستان برآمد کی جاتی ہیں۔

وفاقی محکمہ مال (ایف بی آر) کے اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2020 اور2021 میں طورخم بارڈر کی برآمدات کا حجم 100 ارب روپے سے زیادہ رہا۔ خرلاچی بارڈر پر 26 ارب ڈالر سے زائد جبکہ غلام خان بارڈر پر یہ حجم آٹھ ارب روپے سے زائد رہا۔

 انگور اڈہ پر افغانستان سے آنے والی اشیا کو 2020 سے پہلے ضلع ٹانک کے کسٹم سٹیشن پر وصول کیا جاتا تھا جو انگور اڈہ سے تقریبا 180 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، لیکن ستمبر 2020 میں انگور اڈہ پر کسٹم سٹیشن کی سہولت مہیا کر دی گئی۔

انگور اڈہ کسٹم سٹیشن پر بارڈر کے دونوں جانب سے درآمدات اور برآمدات کی جاتی ہیں۔ ایف بی آر کے مطابق انگور اڈہ پر سب سے زیادہ تازہ پھل اور سبزیاں، خشک میوہ جات، سکریپ اور کوئلے کی تجارت رہتی ہے۔

خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس و انڈسٹری کے نائب صدر شاہد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’انگور اڈہ کراسنگ کو ایکسپورٹ روٹ ڈیکلیئر کرنے کا مطالبہ ہمارا بہت پرانا تھا اور یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ اس کی منظوری ہو گئی۔‘

شاہد حسین تین سال تک بائی لیٹرل ٹریڈ پروموشن سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’اس بارڈر کو ایکسپورٹ روٹ ڈیکلیئر کرنے سے تو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ طورخم، غلام خان اور خرلاچی بارڈر پر لوڈ کم ہوجائے گا اور دونوں ممالک کی تجارت کو فروغ بھی ملے گا۔

’سب سے زیادہ فائدہ بارڈر کے مقامی لوگوں کو ہو گا کیونکہ مقامی آبادی میں تعلیم کا رجحان اب بڑھ گیا ہے لیکن روزگار کے مواقع بہت کم ہیں، تو اس روٹ سے مقامی آبادی کو فائدہ ملے گا۔‘

 انہوں نے بتایا کہ ’انگور اڈہ کو اس سے پہلے 2021 میں بھی ایکسپورٹ کے لیے کھول دیا گیا تھا تاہم اس وقت انگور اڈہ پر وہ مراعات موجود نہیں تھیں جو دیگر بارڈرز پر دی جاتی ہیں۔‘

 ’درآمدات پر حکومت کی جانب سے جو سبسڈی دیگر بارڈرز پر دی جاتی ہے، وہ اس وقت انگور اڈہ پر نہیں دی جا رہی تھی۔‘

’اس وقت امن و امان کی خراب صورت حال اور بارڈر کے دونوں جانب عملے کی کمی کی وجہ سے انگور اڈہ کو دوبارہ ایکسپورٹ کے لیے بند کردیا گیا تھا لیکن اب اس کو باقاعدہ ایکسپورٹ روٹ منظور کیا گیا ہے جو خوش آئند ہے۔‘

وسطی ایشیائی ممالک کے بارے میں شاہد حسین نے بتایا کہ ’ایک تو ایکسپورٹ ہوتی ہے، دوسرا اہم معاملہ ٹرانزٹ ہے۔ تو اگر اسی بارڈر کو وسطی ایشیائی ممالک کے لیے بطور ٹرانزٹ منظوری بھی دی گئی ہے تو یہ بھی نہایت فائدے کی بات ہے کیونکہ یہ پاکستان کی معیشت سمیت علاقائی ترقی کے لیے نیک شگون ثابت ہو گا۔‘

’انگور اڈہ کو بطور ایکسپورٹ روٹ ڈیکلیئر کرنے میں ایک آسانی یہ بھی ہو گی کہ بعض اوقات اشیا طورخم سے جا کر واپس افغانستان میں انگور اڈے کے آس پاس صوبوں کو منتقل کی جاتی تھیں جو بہت وقت بھی لیتا تھا اور پیسوں کا ضیاع بھی تھا۔‘

شاہد حسین نے بتایا، ’طورخم تک مشرقی اور مرکزی افغانستان سے رسائی بہتر ہے، شمالی افغانستان کے لیے غلام خان اور خرلاچی بارڈر جبکہ انگور اڈہ افغانستان کے جنوبی صوبوں جیسے پکتیکا وغیرہ کے لیے قابل رسائی ہے اور وہاں باآسانی اشیا کو برآمد کیا جاتا ہے۔‘

انگور اڈہ بطور ایکسپورٹ روٹ چلانے میں چیلنجز کیا ہیں؟

یہی سوال جب شاہد حسین سے کیا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے بڑا مسئلہ مقامی مافیا کا ہے جو زیادہ تر تمام معاملات اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں، تو حکومت کی جانب سے اس چیز پر قابو رکھنا ہو گا۔‘

اسی طرح شاہد حسین کے مطابق اس علاقے میں بجلی اور مواصلات کا کوئی نظام موجود نہیں ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہاں پر تمام سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ اس روٹ سے جو فائدہ ملنے کی توقع ہے، وہ صحیح معنوں میں مل سکے۔

انہیں چیلنجز کا ذکر ایف بی آر نے 2021 میں جاری شدہ ایک رپورٹ میں بھی کیا ہے۔  رپورٹ کے مطابق وانا اور انگور اڈہ کے درمیان سڑک بری حالت میں ہے جو زیادہ ٹریفک کے لیے موزوں نہیں ہے۔

اس کے علاوہ رپورٹ کے مطابق ’یہ علاقہ شدت پسندی سے بہت متاثر ہوا ہے اور کسٹم سٹیشن پر عملے کی مزید تربیت کی بھی ضرورت ہے تاکہ بہتر طریقے سے معاملات کو سر انجام دیا جا سکے۔‘

روڈ کے ابتر حالات کے حوالے سے وزیرستان چیمبر آف کامرس کے رکن سیف الرحمٰن نے بتایا کہ ’ابھی کراچی سے ڈیرہ اسماعیل خان، پھر ٹانک اور ٹانک سے وانا کا روٹ استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ روٹ بڑی کارگو گاڑیوں کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق: ’ژوب سے وانا تک ایک مختصر روٹ ہے جس کا ہمیں بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ حکومت نے اس کو بنانے کے لیے وعدہ تو کیا ہے، لیکن ابھی تک اس پر کام شروع ہوا ہے۔ یہ روٹ وسط ایشیائی ممالک کی برآمدات کے لیے بہت فائدہ مند ہوگا۔‘

یہ علاقہ اپنی تاریخ بھی رکھتا ہے۔ امریکہ نے نائن الیون حملوں کے بعد جب 2001 میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش شروع کی تو2003 میں وانا کے مقام پر انگور اڈہ کے چند کلومیٹر رقبہ زیر نگرانی رہا۔

کرسچن سائنس مانیٹر کی اس وقت کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کی سپیشل فورسز انگور اڈہ کے افغانستان کی جانب واقع شکین ٹاون میں امریکی بیس سے اس علاقے کے نگرانی کر رہی تھیں جبکہ پاکستانی طرف سے بھی علاقے پہ نظر رکھی گئی تھی۔

انگور اڈہ میں امریکہ کی سپیشل فورسز نے 2008 میں آپریشن کیا تھا جس میں بچوں سمیت سات افراد جان سے گئے تھے۔ پاکستان کی جانب سے اس حملے کی مذمت بھی کی گئی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت