مبینہ لیک میموز پر فی الحال بیان جاری نہیں کرنا چاہتے: دفتر خارجہ

پاکستان کے دفتر خارجہ نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر کی گفتگو پر مبنی حساس معلومات کے بارے میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی خبروں پر تبصرہ کرنے سے معذرت کی ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے واشنگٹن پورسٹ کی خبر پر بیان جاری کرنے سے معذرت کی ہے (فائل فوٹو/ انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کے دفتر خارجہ نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر کی گفتگو پر مبنی حساس معلومات کے بارے میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی خبروں پر تبصرہ کرنے سے معذرت کی ہے۔

واشنگٹن پوسٹ نے یوکرین، روس اور چین کے حوالے سے پاکستان کی حکمت عملی کے بارے میں دو مبینہ حساس دستاویزات لیک ہونے پر ایک خبر شائع کی تھی۔

اس خبر پر پاکستان کی وزارت خارجہ سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا تو وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ ’اس وقت ہم اس معاملے پر کوئی بیان جاری کرنے کا اردہ نہیں رکھتے‘ تاہم اس مختصر ردعمل میں نا تو لیک دستاویزات کے درست ہونے کی تردید کی گئی ہے اور نہ ہی تصدیق۔

شائع شدہ لیکس دستاویزات اقوام متحدہ میں روس اور یوکرین سے متعلق ووٹنگ پر پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور چین کے حوالے سے پاکستان کی حکمت عملی پر وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کی گفتگو پر مشتمل ہیں۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کی گفتگو رواں برس 17 فروری کو روس، یوکرین تنازع پر اقوام متحدہ میں ووٹنگ سے متعلق ہے، جس میں ایک معاون نے وزیراعظم شہباز شریف کو مشورہ دیا کہ ’قرار داد کی حمایت سے پاکستان کے روس سے تجارت اور توانائی کے سمجھوتے خطرے میں پڑ سکتے ہیں اور قرارداد کی حمایت پاکستان کی پوزیشن میں تبدیلی کا تاثر دے گی۔‘

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ’جب 23  فروری کو اقوام متحدہ کی جانب سے ’یوکرین پر روس کی جارحیت پر مذمت‘ کے لیے ووٹنگ کرائی گئی تو پاکستان ان 32 ممالک میں شامل تھا جنہوں نے احتراز کیا تھا۔

لیک دستاویزات کے مطابق رواں برس مارچ میں حنا ربانی کھر نے کہا تھا کہ ’پاکستان کو مغرب کو خوش کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ پاکستان کی امریکہ سے سٹریٹجک پارٹنرشپ قائم رکھنے کی خواہش چین سے اصل سٹریٹجک پارٹنرشپ کے مکمل فوائد کو قربان دے گی۔‘

’اس دستاویز سے کچھ خاص فرق شاید نہ پڑے‘

سابق سفارت کار آصف درانی کا کہنا ہے کہ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ ’اگر لیکس سے آئی ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ یہ مستند ہے۔ کیونکہ اس طرح کی رپورٹس کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔‘

آصف درانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عراق پر جب امریکہ نے حملہ کیا تھا تو یہی کہا تھا کہ انٹیلیجنس رپورٹ کے مطابق وہاں تباہ کن ہتھیار ہیں۔ انہوں نے صدام حسین کو ہٹایا، جنگ کی اور بعد میں یہ دعویٰ اور رپورٹ غلط ثابت ہوئے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا ہے کہ ’مڈل ایسٹ میں جو تباہی ہے وہ امریکہ کی ایسی ہی رپورٹس کی بنیاد پر ہوئی ہے۔‘

اس معاملے پر سابق سفیر عاقل ندیم کہتے ہیں کہ ’یہ جو دستاویزات لیک ہوئی ہیں اس کی تحقیق تو ضرور ہونی چاہیے کہ یہ کیسے ہوئی۔‘

عاقل ندیم کا کہنا ہے کہ ’لگتا یہ ہے کہ یہ میمو سمری کی شکل میں وزیراعظم آفس کو دی گئی۔ سمری وزیر خود نہیں بناتے بلکہ جو متعلقہ سیکریٹری ہوتے ہیں وہ بناتے ہیں۔ ممکنہ طور پر انہوں نے یہ ایڈوائس دی ہو گی۔ ایسی دستاویز مختلف سرکاری دفاتر سے گزر کر جاتی ہیں تو لیک ہونے کا چانس ہو سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر یہ دستاویز مستند ہے تو یہ چین کے لیے خوش آئند ہے۔ ان کے شکوک ختم ہو جائیں گے کہ پاکستان کے لیے چین کے تعلقات اہم ہیں اور پاکستان اس کو امریکہ کے تناظر میں نہیں دیکھ رہا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ویسے بھی امریکہ کے ساتھ تعلقات اتار چڑھاؤ کا ہی شکار رہتے ہیں۔ اس لیے اس دستاویز سے کچھ خاص فرق شاید نہ پڑے۔ اس میں امریکہ کو یہ بھی  پیغام ہے کہ پاکستان کے پاس اور بھی آپشنز موجود ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان