الیکشن کی تاریخ پر مذاکرات ناکام ہوچکے: شیریں مزاری

پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے کہا ہے کہ پارٹی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا تھا کہ ’فریقین اسمبلیوں کی تحلیل اور انتخابات کی تاریخ طے کرنے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے مذاکرات ختم ہو گئے۔‘

دو مئی 2023 کو اسلام آباد میں الیکشن کے معاملے پر مذاکرات کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کی ٹیم (تصویر: شاہ محمود قریشی فیس بک اکاؤنٹ)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سینیئر رہنما شیریں مزاری نے کہا ہے کہ ملک میں ایک ہی وقت انتخابات کرانے کے حوالے سے منگل (دو مئی) کو ان کی پارٹی اور وفاقی حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے تیسرے دور کے حوالے سے پی ٹی آئی کے موقف کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔

بدھ کو اپنے ٹوئٹر پیغام میں شریں مزاری کا کہنا تھا کہ حکومت سے مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں اور  میڈیا نے اس بارے میں ان کے بقول پی ٹی آئی کا موقف توڑ مروڑ کر پیش کیا۔

بقول شیریں مزاری: ’مذاکرات میں ہمارا موقف یہ تھا کہ اگر 14 مئی تک اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں تو پی ٹی آئی ایک ہی دن تمام انتخابات پر رضامند ہو جائے گی، لیکن پی ڈی ایم نے اتفاق نہیں کیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پارٹی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا کہ ’فریقین اسمبلیوں کی تحلیل اور انتخابات کی تاریخ طے کرنے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے مذاکرات ختم ہو گئے۔‘

گذشتہ شب وفاقی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان اسمبلیوں کی تحلیل اور عام انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے مذاکرات کا تیسرا دور ہوا تھا، جس کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کے وفود کے درمیان ملک میں ایک ہی وقت عام انتخابات پر اتفاق ہو گیا ہے۔

مذاکرات کے نتائج کو ’مثبت‘ قرار دیتے ہوئے اسحاق ڈار نے مزید کہا تھا کہ ’اس بات پر اتفاق ہے کہ ملک میں ایک ہی دن انتخابات ہونے چاہییں۔ دو صوبوں میں ایک تاریخ پر اور قومی اسمبلی سمیت دیگر اسمبلی میں کسی اور تاریخ پر انتخابات کے معاملے میں مزید ابہام نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا تھا کہ ’دونوں فریق اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ ایک ہی دن انتخابات میں بہتری ہے۔‘

تاہم انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے کچھ لچک تو آئی ہے لیکن دونوں ہی فریقین نے اپنی اپنی تاریخیں تجویز کی ہیں۔‘

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے نائب چیئرمین اور مذاکراتی ٹیم میں شامل شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’حکومتی ٹیم کا ابتدائی نقطہ نظر یہ تھا کہ انتخابات پنجاب اور خیبرپختونخوا سمیت پورے ملک میں ایک ساتھ ہوں اور اسمبلیاں اپنی پارلیمانی مدت مکمل ہونے پر تحلیل کی جائیں۔‘

انہوں نے کہا: ’اس معاملے پر ہم نے بحث کی اور ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش کی۔‘

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’ہم نے خاصی لچک دکھائی۔ ہم نے ایک دن الیکشن کی تجویز قبول کی، نگران سیٹ اپ کو تسلیم کیا اور 54 دن کی جو قدغن ہے، اسے تسلیم کیا اور آگے بڑھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’مگر ہم سمجھتے ہیں کہ اس پر پی ڈی ایم اور ہمارا اتفاق نہ ہو سکا۔‘

بقول شاہ محمود قریشی: ’ہم نے تجویز ان کے سامنے رکھی کہ قومی اسمبلی سمیت سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں 14 مئی سے پہلے تحلیل کی جائیں اور اس کے بعد 60 دن کے اندر انتخابات کرائیں جائیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے یہ تجویز بھی دی کہ اس کے لیے آئین میں صرف ایک مرتبہ کے لیے ترمیم کی جائے، جس کے لیے تحریک انصاف قومی اسمبلی میں جانے کے لیے تیار ہے۔‘

پی ٹی آئی رہنما کا مزید کہنا تھا: ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم سپریم کورٹ میں اپنا موقف تحریر طور پر پیش کریں گے۔

’ہم سپریم کورٹ سے گزارش کریں گے کہ ان مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہو سکی۔ پنجاب کے انتخابات 14 تاریخ کو کروا دیے جائیں اور خیبر پختونخوا کے الیکشن میں بھی ہم تاخیر نہیں چاہتے۔‘

ملک کے دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلیاں (جہاں عمران خان کی حکومتیں تھیں) حالیہ عرصے میں تحلیل کر دی گئی تھیں اور اب وہاں نگران حکومتیں قائم ہیں۔ سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کروانے کا حکم دے رکھا ہے۔

حکومت میں شامل جماعتوں کا موقف ہے کہ ملک بھر میں انتخابات ایک ہی تاریخ پر ہونے چاہییں اور اسی مقصد کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کے تین دور ہو چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست