کیا پاکستان کے بغیر ورلڈ کپ کا سوچا بھی جا سکتا ہے؟

پاکستان کرکٹ ٹیم بھی مکمل تیاری کے ساتھ ورلڈ کپ کے لیے انڈیا جانا چاہتی ہے لیکن اس کی راہ میں انڈیا کی منفی سوچ آڑے آ رہی ہے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم دنیا کی ان چند ٹیموں میں شمار ہوتی ہے جسے دنیا میں ہر جگہ شائقین کھیلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں (اے ایف پی)

1965 کی انڈیا پاکستان جنگ کے موقعے پر ریڈیو پاکستان سے ایک پروگرام ہوا کرتا تھا جس میں صداکارہ عرش منیر کا مکالمہ ’میں نہ مانوں‘ بہت مشہور ہوا تھا جو انڈیا کی ہٹ دھرمی کی عکاسی کرتا تھا۔

آج جب میں بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کے بارے میں انڈیا کی سوچ  دیکھتا ہوں تو مجھے قطعاً حیرت نہیں ہوتی اور میرے ذہن میں یہی بات آتی ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا۔

اس کالم کو آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں:

یہ ورلڈ کپ کا سال ہے جو انڈیا میں منعقد ہونے والا ہے۔ ہر ٹیم اسی کو ذہن میں رکھ کر اپنی تیاری شروع کرچکی ہے اور ایک بہترین مجموعے کو حتمی شکل دینے میں مصروف نظر آتی ہے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم بھی مکمل تیاری کے ساتھ انڈیا جانا چاہتی ہے لیکن اس کی تیاری کی راہ میں انڈیا کی منفی سوچ آڑے آرہی ہے۔

پاکستان ہی نہیں بلکہ خود انڈیا، سری لنکا، بنگلہ دیش اور افغانستان کو ورلڈ کپ سے قبل ایشیا کپ کی شکل میں عالمی ایونٹ کے لیے اپنی تیاریوں کو حتمی شکل دینے کا اچھا موقع ہاتھ آرہا ہے لیکن ایشیا کپ اس وقت جس بے یقینی صورت حال کا شکار ہے اس سے دیگر ٹیموں کے مقابلے میں پاکستان کو سب سے زیادہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس مایوسی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان کو نیوزی لینڈ کے خلاف موجودہ سیریز کے بعد صرف افغانستان کے خلاف ہی دو طرفہ سیریزکھیلنی ہے جس میں صرف تین ون ڈے میچز ہیں اس لحاظ سے ایشیا کپ میں پاکستانی ٹیم کو انڈیا، سری لنکا، بنگلہ دیش اور افغانستان سے میچز کھیل کر اچھی تیاری مل سکتی ہے۔

پاکستان کی مایوسی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ ایشیا کپ کا میزبان ہے لیکن انڈیا نے جو حالات پیدا کررکھے ہیں اس کے نتیجے میں اس ایونٹ کے انعقاد پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔

یہ بات سب ہی کو معلوم تھی کہ انڈین کرکٹ ٹیم کسی صورت بھی ایشیا کپ کھیلنے پاکستان نہیں آئے گی۔ اس صورت حال میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایشین کرکٹ کونسل میں یہ فارمولا پیش کیا تھا کہ انڈیا کے سوا دیگر تمام ٹیمیں پاکستان آکر میچز کھیل لیں اور انڈیا اپنے میچز کسی نیوٹرل ملک میں کھیل لے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کی منیجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ اگر پاکستان ایشیا کپ میں انڈیا کے میچز نیوٹرل مقامات پر منتقل کرتا ہے تو پھر انڈیا بھی ورلڈ کپ میں پاکستان کے میچز نیوٹرل مقامات پر منتقل کرے کیونکہ معاملہ برابری کا ہونا چاہیے۔

نجم سیٹھی نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم سے کہا جارہا ہے کہ ایشیا کپ نیوٹرل ملک میں کھیل لیں اور ورلڈ کپ کھیلنے انڈیا بھی چلے جائیں اور جب  2025ء میں چیمپئنز ٹرافی کا وقت آئے گا تو انڈین کرکٹ بورڈ اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے کے بارے میں غور کرسکتا ہے۔

چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی بھی پاکستان کو ملی ہوئی ہے۔ اس وقت جو فضا قائم ہوچکی ہے اس میں یہی نظر آرہا ہے کہ انڈیا نہ صرف اپنی ٹیم ایشیا کپ کے لیے پاکستان بھیجنے پر تیار نہیں بلکہ ساتھ ساتھ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ایشیا کپ مکمل طور پر پاکستان کے بجائے کسی نیوٹرل مقام پر منتقل کردیا جائے۔

یہی نہیں بلکہ اس نے گذشتہ دنوں اپنے میڈیا میں یہ خبر بھی دے کر ردعمل دیکھنے کی کوشش کی کہ ایشیا کپ ملتوی ہونے کے بعد انڈیا پانچ ملکوں کا ایک ٹورنامنٹ کراسکتا ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ بات کسی صورت میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتی کہ وہ ایشیا کپ کی میزبانی سے دستبردار ہوجائے۔

ان حالات میں یا تو ایشیا کپ کے اس سال ملتوی ہونے کے امکانات ہوسکتے ہیں یا پھر دوسری صورت میں یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انڈیا اپنی مضبوط پوزیشن کے ذریعے ایشین کرکٹ کونسل کے دیگر ممالک کو اپنے ساتھ ملاکر یہ فیصلہ کروالے کہ ایشیا کپ پاکستان سے کہیں اور منتقل کردیا جائے۔

اگر پاکستان کو ایشیا کپ کی میزبانی سے محروم کیے جانے کا فیصلہ ہوتا ہے تو اس صورت میں دیکھنا یہ ہوگا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا کیا ردعمل سامنے آتا ہے۔

ایشیا کپ دراصل ایشین کرکٹ کونسل کا ایونٹ ہے جس کی میزبانی اس کے رکن ملک کو دی جاتی ہے۔

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ آئی سی سی  ہو یا ایشین کرکٹ کونسل ان دونوں اداروں میں وہی کچھ ہوتا ہے جو انڈیا چاہتا ہے اور اس کی سیدھی سادی وجہ انڈین کرکٹ کی مضبوط مالی پوزیشن ہے جس کے سبب دنیا کے تقریباً تمام ہی کرکٹ بورڈز اسے ناراض کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

انڈیا کی اس مضبوط پوزیشن میں اگر کسی ملک یا کرکٹ بورڈ نے جرات مندانہ رویہ اختیار کیا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ حالانکہ عام تاثر یہی تھا کہ  پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے انڈیا کے انکار کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ  کو جتنا مالی نقصان ہوگا وہ اسے برداشت نہیں کرسکے گا لیکن پی سی بی نے اس تمام تر صورت حال میں بھی اپنی حیثیت پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آج پاکستان کرکٹ بورڈ انڈیا کے بغیر بھی اپنی کرکٹ بخوبی چلا رہا ہے اور مالی طور پر بھی وہ  بنگلہ دیش اور سری لنکا سے کہیں زیادہ بہتر پوزیشن میں ہے یہ وہ ممالک ہیں جن کے کرکٹ  بورڈز ہمیشہ انڈیا کی طرف مدد کے لیے دیکھتے رہے ہیں۔

یہاں یہ سوال بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا ایشین کرکٹ کونسل میں رہنے کا کیا فائدہ جہاں تمام تر فیصلے انڈین کرکٹ بورڈ کے اثرورسوخ کے تحت اس کی مرضی اور منشا کے تحت ہوتے ہیں۔

یہ بات سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش سری لنکا اور افغانستان کے کرکٹ بورڈ ہمیشہ انڈین کرکٹ بورڈ کے احسان مند رہے ہیں۔ رہی سہی کسر آئی پی ایل نے پوری کر دی ہے جس کے ذریعے انڈیا پوری دنیا کی کرکٹ کو کنٹرول کرچکا ہے۔

اب تو یہ اطلاعات بھی ہیں کہ آئی پی ایل کے فرنچائز مالکان انگلینڈ کے کرکٹرز سے کل وقتی سالانہ معاہدوں میں دلچسپی رکھے ہوئے ہیں اور انہوں نے اس ضمن میں انگلینڈ کے چھ کرکٹرز سے رابطہ کیا ہے اگر یہ معاہدے ہوجاتے ہیں تو اس صورت میں یہ کھلاڑی انگلینڈ کرکٹ بورڈ یا انگلش کاؤنٹیز کے بجائے آئی پی ایل کی فرنچائزز کے ملازم ہوجائیں گے۔

ورلڈ کپ میں پاکستان کی شرکت

ایشیا کپ ہی اس وقت واحد مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ اس موجودہ صورت حال میں ورلڈ کپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی شرکت کا کیا بنے گا؟

دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا پاکستانی حکومت اپنی ٹیم کو انڈیا بھیجنے کی اجازت دے گی یا نہیں؟

پاکستانی وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری گوا میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے کہہ چکے ہیں کہ کھیلوں کو سیاست کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننا چاہیے۔

یہ اس جانب واضح اشارہ ہے کہ پاکستان کی حکومت کو ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی شرکت پر کوئی اعتراض نہیں لیکن یہ سب کچھ حالات پر منحصر کرے گا۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم دنیا کی ان چند ٹیموں میں شمار ہوتی ہے جسے دنیا میں ہر جگہ شائقین کھیلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس وقت عالمی سطح پر بابراعظم، محمد رضوان، شاہین شاہ آفریدی اور فخرزمان کی جو پوزیشن ہے اور جس طرح ان کی فین فالوئنگ ہوچکی ہے اس میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ کوئی بھی بڑا ایونٹ پاکستانی ٹیم کے بغیر ممکن ہوسکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ