عمران ریاض بازیاب نہ ہو سکے، سماعت 18 مئی تک ملتوی

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ’آئی ایس آئی پاکستان کی بہترین ایجنسی ہے کیوں نہ ان کی مدد لے کر پولیس عمران ریاض خان کو تلاش کرے؟‘

پولیس کے مطابق صحافی اور اینکر عمران ریاض خان کو سیالکوٹ ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا(تصویر:عمران ریاض آفیشل فیس بک پیج)

لاہور ہائی کورٹ نے سیالکوٹ کے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) سے صحافی عمران ریاض کے معاملے پر ایجنسیز سے رابطہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 18 مئی تک ملتوی کر دی ہے۔

عدالت میں پیر کو جیل کی سی سی ٹی وی فوٹیج چلائی گئی تو عمران ریاض کے وکیل نے اعتراض اٹھایا کہ ’فوٹیج میں وقت نہیں دیکھایا جا رہا اور ویڈیو میں جگہ جگہ کٹ لگا ہوا ہے۔ عمران ریاض کو جیل سے واپسی پر ویگو ڈالے میں لے جاتے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔‘

عمران ریاض کے وکیل نے کہا کہ ’ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عمران ریاض کو جیل سے جیسے ہی رہا کیا گیا جیل کے باہر موجود نامعلوم افراد ویگو میں بیٹھا کر لے گئے۔‘

عدالت نے سرکاری وکیل اور ڈی پی او کو ایجنسیز سے رابطہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ’جائیں چیک کریں کون لے کر گیا ہے۔‘

اس پر ڈی پی او سیالکوٹ نے کہا کہ ’مجھے گجرانوالہ جاکر چیک کرنا پڑے گا۔‘

عدالت نے قرار دیا کہ ’اینکر پرسن تو اپنی رائے دیتا ہے قانون اسے حق دیتا ہے یا تو پھر قانون ختم کر دیں اور ان سے حق لے لیں۔ پریس کو آزاد رہنے دیں آزادی سے کام کرنے دیں۔ وہ تو بیرون ملک جا رہا ہے، پھر نظر بندی کی کیا ضرورت تھی؟ ایک شخص باہر جا رہا ہے تو وہ کیسے امن و امان کا خطرہ بن رہا تھا۔ بتائیں کہاں اس نے تقریر کی جو روزنامچہ میں لکھا ہے؟‘

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ’آئی ایس آئی پاکستان کی بہترین ایجنسی ہے کیوں نہ ان کی مدد لے کر پولیس عمران ریاض خان کو تلاش کرے؟‘

 انہوں نے کہا کہ ’ہم ان کو بلا کر آرڈر کر دیتے ہیں۔ سیکٹر کمانڈر لاہور سے میٹنگ کریں اور ان کی مدد  لیں عمران ریاض  کو ڈھونڈ نے میں۔ اگر آپ کی نہیں مانتے تو میں کہہ دیتا ہوں۔‘

عدالت نے ڈپٹی کمشنر سے 11 مئی کو جاری ہونے والے تمام نظر بندی کے احکامات کا ریکارڈ طلب کیا کہ کس کس کے نظری بندی کے احکامات جاری ہوئے اور ان کے خلاف کیا مواد تھا۔

چیف جسٹس نے قرار دیا کہ ’ڈی پی او جائیں اور کورک مانڈر سے مل لیں۔ تمام ایجنسیز کو حکم دے رہا ہوں کہ عمران ریاض خان کو بازیاب کرانے میں پولیس کی معاونت کریں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل صحافی عمران ریاض کی بازیابی کے لیے درخواست پر پیر کو لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ’غلط بیانی‘ کرنے اور روزنامچے میں گرفتاری درج نہ کرنے پر ایس ایچ او کینٹ سیالکوٹ کو معطل کر دیا گیا اور شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے سات روز میں جواب طلب کیا تھا۔

نو مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے اگلے روز صحافی عمران ریاض کو سیالکوٹ ایئرپورٹ سے گرفتار کیے جانے کی خبریں سامنے آئی تھیں۔ جس کے بعد ان کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی۔

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے عمران ریاض کے وکیل کی جانب سے ان کی بازیابی کے لیے دائر کی گئی درخواست پر آج سماعت کی۔

عدالتی حکم پر ڈی پی او سیالکوٹ  فیصل کامران اور متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او پیش ہوئے۔

عدالت عالیہ نے استفسار کیا کہ ’پولیس نے عمران ریاض کی بازیابی کے لیے گذشتہ تین روز میں کیا کوشش کی؟ ڈی پی او صاحب بتائیں آپ کے ساتھ کیا سلوک کیاجائے؟‘

ڈی پی او سیالکوٹ نے جواب دیا: ’مجھے اطلاع موصول ہوئی تھی، اس کے بعد ایس ایچ او کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔‘

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’روزنامچے میں نہیں لکھا گیا کہ گرفتاری کا حکم ڈی پی او نے دیا تھا۔‘

جس پر ڈی پی او نے جواب دیا کہ ’ہم نے روزنامچے میں کوئی تبدیلی نہیں کی ویسے ہی عدالت میں پیش کیا ہے۔‘

عدالت میں عمران ریاض کو جیل میں بھیجنے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دکھائی گئی۔

چیف جسٹس نے ڈی پی او سے استفسار کیا کہ ’آپ کو کس نے گرفتاری کا حکم دیا؟‘ ڈی پی او کی خاموشی پر عدالت نے ان کی سرزنش کی اور ریمارکس دیے کہ ’کیوں نہ آپ کو ڈی پی او شپ سے ہٹا دیا جائے؟ آپ بتائیں کہ آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟‘

ڈی پی نے موقف اپنایا کہ ’میں حکم کی تعمیل کرنے کا پابند تھا۔‘

عدالت نے پوچھا کہ ’کس نے آپ کو حکم دیا تھا بتائیں؟‘

جس کا وہ جواب نہ دے سکے۔

عدالت نے ایس ایچ او سے استفسار کیا کہ ’عمران ریاض کو کیوں گرفتار کیا؟‘

ایس ایچ او نے موقف اختیار کیا کہ ’انہیں تین ایم او کے تحت سیالکوٹ ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ پہلے گرفتار کیا اور پھر نظر بندی کے احکامات موصول ہوئے۔‘

عدالت نے قرار دیا کہ ’تھانے میں انفارمیشن آتی ہے اور پھر گرفتاری کے لیے آرڈر لیں گے؟ ایس ایچ او کو کارروائی کے لیے اجازت لینا ضروری ہے۔‘

اس موقعے پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلیغ الزمان نے دلائل دیے کہ ’لا اینڈ آرڈر نافذ کرنے والے سکیورٹی ادارے اس طرح کی کارروائی کر سکتے ہیں۔ ایس ایچ او نے غیر قانونی کام نہیں کیا بلکہ اپنی ذمہ داری پوری کی۔‘

جس پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ ’لوگوں کو اکسانا کس جرم کی زد میں آتا ہے۔ قانون کو بند کر دیں اور سکیورٹی اداروں کی منشا پر کام کریں۔ سکیورٹی ادارے اگر غلط کام کرتے ہیں تو کیا اس کو قانونی قرار دے دیں؟ روزنامچہ ثابت کرتا ہے کہ پولیس کتنا کام کرتی ہے۔ ڈی پی او سمیت سب کمروں میں بیٹھے رہتے ہیں۔‘

سرکاری وکیل نے موقف اپنایا کہ ’ڈی پی او ریکارڈ اور جیل حکام ریکارڈ میں کوئی ٹیمپرنگ نہیں ہوئی۔‘

چیف جسٹس نے قرار دیا کہ ’مجھے میرا اللہ سمجھا دیتا ہے کہ کہاں غلط ہو رہا ہے۔‘

ڈی پی او نے کہا کہ ’میں کسی کو سزا دے کر بچنا نہیں چاہتا۔‘

سماعت کے بعد عدالت نے غلط بیانی کرنے اور روزنامچے میں عمران ریاض کی گرفتاری درج نہ کرنے پر ایس ایچ او کینٹ سیالکوٹ کو معطل کر دیا اور شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے سات روز میں جواب طلب کر لیا۔

عدالت عالیہ نے ڈپٹی کمشنر سے تمام ریکارڈ اور اس بارے میں کی گئی خط و کتابت طلب کر لی  اور سماعت ایک بجے تک ملتوی کر دی۔

صحافی اوریا مقبول جان کو دو بجے پیش کرنے کا حکم

لاہور ہائی کورٹ نے صحافی اور اینکر اوریا مقبول جان کو آج دوپہر دو بجے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس عالیہ نیلم نے اوریا مقبول جان کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ اوریا مقبول جان کو نامعلوم افراد تین دن پہلے گھر سے اغوا کر کے لے گئے ہیں، لہذا عدالت بازیابی کے احکامات جاری کرے۔

دونوں اینکرز کی رہائی کے لیے اتوار (14 مئی) کو لاہور پریس کلب میں سول سوسائٹی کے نمائندوں اور صحافیوں نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔

ان کی گرفتاری سے متعلق سوشل میڈیا پر بھی مختلف رائے سامنے آ رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان