’جدید غلامی‘ میں پاکستان چوتھے، انڈیا چھٹے بدترین ملک

عالمی تنظیم ’واک فری‘ کے مطابق جدید غلامی عام نظروں سے پوشیدہ ہے لیکن دنیا کے ہر کونے میں کئی لوگوں کی زندگی اسی غلامی میں گزر رہی ہے۔

تنظیم کے مطابق غلامی کے حوالے سے بدترن صورت حال کا سامنا ایشیا اور بحرالکاہل خطے کو ہے جہاں دنیا کی 56 فیصد آبادی رہتی ہے (فائل فوٹو)

عالمی تنظیم ’واک فری‘ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً پانچ کروڑ افراد جدید غلامی (ماڈرن سلیوری) کی زندگی گزار رہے ہیں اور پاکستان اس عالمی انڈیکس میں چوتھا بدترین ملک ہے۔

عالمی تنظیم ’واک فری‘ کے مطابق جدید غلامی عام نظروں سے پوشیدہ ہے لیکن دنیا کے ہر کونے میں کئی لوگوں کی زندگی اسی غلامی میں گزر رہی ہے۔

تنظیم کے مطابق غلامی کے حوالے سے بدترن صورت حال کا سامنا ایشیا اور بحرالکاہل خطے کو ہے جہاں دنیا کی 56 فیصد آبادی رہتی ہے۔

واک فری کے مطابق یہ خطہ جدید غلامی کے حوالے سے بھی سب سے اوپر ہے جہاں ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ کروڑ افراد جبری مشقت کا شکار ہیں۔

اس خطے میں جدید غلامی کی کئی شکلیں ہیں جیسے بنگلہ دیش میں تارکین وطن کا استحصال،  پاکستان میں قرض کی زنجیروں میں جکڑے افراد کی نسل در نسل غلامی اور چین، شمالی کوریا اور دیگر ممالک میں ریاست کی طرف سے جبری مشقت شامل ہے۔

عرب ریاستوں کے بعد ایشیا اور بحرالکاہل میں جبری شادی کا پھیلاؤ دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں ہر ایک ہزار افراد میں ایک اندازے کے مطابق 4.5 خواتین اور 2.1 مرد اس کا شکار ہیں۔

اگرچہ ایشیا بحر الکاہل کا خطہ جغرافیہ، نسل، ثقافت، مذہب اور دولت کے لحاظ سے انتہائی منقسم ہے لیکن جدید غلامی ہر ملک میں پائی جاتی ہے۔

جنس، نسل، ذات اور نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک جدید غلامی کی مختلف شکلیں ہیں۔

یہ صورت حال تنازعات سے مزید بگڑ گئی ہے جیسا کہ میانمار میں روہنگیا آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی، سیاسی عدم استحکام، جیسا کہ افغانستان میں طالبان کا اقتدار پر قبضہ اور معاشی عدم تحفظ، جیسا کہ سری لنکا اور دیگر ممالک میں معاشی بحران اور انسانی ہنگامی صورت حال سے ظاہر ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات جیسا کہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب اور کرونا کی وبا نے پورے خطے میں اس خطرے کو بڑھا دیا ہے جس سے بے روزگاری، غربت اور صنفی عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔

خطے میں جدید غلامی سے نمٹنے کے لیے آسٹریلیا نے سب سے زیادہ اقدامات کیے ہیں۔

اس کے بعد فلپائن اور تھائی لینڈ میں بھی مثبت اقدمات کیے گئے جب کہ شمالی کوریا اور ایران نے اس حوالے سے سب سے کم کام کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زیادہ تر ممالک میں، حکومتوں کو لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے شادی کی عمر کو 18 سال کرنے سمیت اہم صنفی تفریق کو دور کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مزدوروں کے حقوق تمام کارکنوں بشمول تارکین وطن تک پہنچ پائیں۔

2021 میں کسی ایشیا اور بحرالکاہل میں ایک اندازے کے مطابق دو کروڑ 93 لاکھ لوگ جدید غلامی کی زندگی گزار رہے تھے۔ یہ عالمی آبادی کا 59 فیصد بنتا ہے۔

جدید غلامی کے حوالے سے ایشیا اور بحرالکاہل بلکہ دنیا میں اب تک سب سے زیادہ پھیلاؤ والا ملک شمالی کوریا ہے جہاں کی ریاست آبادی کی جانب سے جبراً غلامی پر مجبور کیا جاتا ہے اور عدم تعمیل کی صورت میں جیلوں اور کیمپوں میں سخت مشقت کی سزا کا خطرہ ہوتا ہے۔  شمالی کوریا میں ایک اندازے کے مطابق ہر 10 میں سے ایک شخص جدید غلامی کے حالات میں پایا گیا ہے۔

شمالی کوریا کے بعد افغانستان، میانمار اور پاکستان خطے میں جدید غلامی کے دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر تھے۔ انڈیا اس فہرست میں چھٹے اور بنگلہ دیش نوے نمبر پر تھے۔

آبادی کے لحاظ سے بڑے ممالک انڈیا، چین اور شمالی کوریا میں ایسے افراد کی تعداد سب سے زیادہ تھی جن کا کل مجموعہ خطے میں جدید غلامی میں مبتلا تمام لوگوں کا دو تہائی حصہ ہے۔

عدم استحکام ایشیا اور بحرالکاہل کے بڑے ممالک میں جدید غلامی کے تجربات کو تشکیل دیتا ہے مثال کے طور پر سیاسی اور معاشی بدحالی کی وجہ سے بگڑتی ہوئی انسانی صورت حال افغانستان اور میانمار میں غلامی کے جدید طریقوں کو تقویت دیتی ہے۔

دوسرے ممالک میں جہاں جدید غلامی کا زیادہ پھیلاؤ ہے جیسا کہ پاکستان اور انڈیا جہاں معاشی عدم تحفظ مزدوروں کو پرخطر ملازمتوں یا ظالم آجروں سے قرض لینے پر مجبور کرتا ہے۔ پھر آجر ان مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں اور انہیں اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے جبری مشقت کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

اگرچہ جدید غلامی کے یہ علاقائی اعداد و شمار آج تک سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں لیکن اہم خطوں اور ذیلی خطوں میں اعداد وشمار کی عدم دستیابی کو دیکھتے ہوئے یہ محض اندازے ہیں۔ مثال کے طور پر تنازعات کا سامنا کرنے والے ممالک جیسے شام میں سروے کرنے میں دشواریوں کا مطلب یہ ہے کہ اعداد و شمار کے فرق کو دور کرنے کی ہماری کوششوں کے باوجود ان ممالک کے لیے ہمارے اندازے ممکنہ طور پر اس مسئلے کم سنگین ظاہر کرتے ہیں۔

ان تخمینوں میں بچوں کی مسلح ملیشیاؤں میں بھرتی یا اعضا کی سمگلنگ بھی شامل نہیں ہے جسے دوسرے ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ خطے کے کچھ حصوں میں ان مسائل کا بھی سامنا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا