کیا ٹوئٹر پاکستان میں انتشار کا باعث بنا ہے؟

سوشل میڈیا پر منظم طریقے سے پھیلائی گئی غلط خبروں کی مدد سے لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

ٹوئٹر پر بڑی تعداد میں باٹس موجود ہیں البتہ ان کی درست تعداد کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے (اے ایف پی)

پاکستان میں نو مئی کے واقعات کے تناظر میں انٹرنیٹ سروس تین دن تک جزوی معطل رہی جس میں سوشل میڈیا پر مکمل پابندی بھی شامل تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستان میں سوشل میڈیا سائٹس پر مکمل طور پر پابندی عائد کی گئی جو تین سے پانچ دن تک جاری رہی۔ جن میں فیس بک اور ٹوئٹر سر فہرست تھے۔

پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے مطابق اس سال جنوری تک مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پاکستانیوں کے 21 کروڑ 70 لاکھ پروفائل موجود ہیں جن میں سے سات کروڑ 10 لاکھ لوگ متحرک صارفین ہیں۔ یوٹیوب سات کروڑ 70 لاکھ صارفین کے ساتھ پہلے، فیس بک پانچ کروڑ 75 لاکھ کے ساتھ دوسرے اور سنیک وڈیو دو کروڑ کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

اگر پاکستان کی کل آبادی میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کا تناسب دیکھا جائے تو اعداد و شمار خاصے حیران کن ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے پر پابندیاں ہیں جس کی وجہ سے لوگ متبادل ذرائع کو استعمال کرتے ہیں۔ ورلڈ فریڈم انڈیکس کے مطابق آزادی اظہارِ رائے کے حوالے سے پاکستان دنیا کے 180 ممالک میں 157 نمبر پر ہے۔

مجموعی طور پر پوری دنیا میں ہی سوشل میڈیا کا انقلاب آیا ہے۔ دنیا کی 58.4 فیصد آبادی یعنی چار ارب 62 کروڑ لوگ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم استعمال کر رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ اوسطاً دو گھنٹے 27 منٹ سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔ جن لوگوں کو انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے ان میں سے 93 فیصد سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اشتہارات میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور 2027 تک صرف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اشتہارات کی مالیت 130ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

ٹوئٹر کے پاکستان میں صارفین کی تعداد کا معمہ

ٹوئٹر کے مطابق اس کے پاکستان میں صارفین کی تعداد 34 لاکھ ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں ٹوئٹر کے ٹاپ ٹین اکاؤنٹس کو دیکھیں جن کی فالوونگ سب سے زیادہ ہے تو ایک قطعی مختلف صورت حال سامنے آتی ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان اس فہرست میں سب سے آگے ہیں جن کے فالوورز کی تعداد ایک کروڑ 92 لاکھ ہے۔

دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی کے اسد عمر ہیں جو دو دن پہلے ہی جماعت کے سیکریٹری جنرل کے عہدے سے مستعفی ہوئے ہیں۔ ان کے فالوورز کی تعداد 94 لاکھ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف 88 لاکھ کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

مریم نواز 80 لاکھ کے ساتھ پانچویں، شیخ رشید احمد 78 لاکھ کے ساتھ چھٹے اور وزیر اعظم شہباز شریف 66 لاکھ کے ساتھ ساتویں نمبر پر ہیں۔

یہاں پر سب سے اہم سوال یہ بھی سامنے آتا ہے کہ جس ملک میں ٹوئٹر کے کل صارفین 34 لاکھ ہیں، وہاں عمران خان کے فالوورز کی تعداد ملک میں ٹوئٹر کے مجموعی صارفین کی تعداد سے ساڑھے چھ گنا زائد کیوں اور کیسے ہے؟

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ ایک عالمی شخصیت بن چکے ہیں اور ان کے فالوورز پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں تو پھر بھی ان کے مقابلے پر انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے آٹھ کروڑ 80 لاکھ فالوورز ہیں، جبکہ انڈیا میں ٹوئٹر کے کل صارفین دو کروڑ 45 لاکھ ہیں۔ یہاں بھی مودی کے کل فالوورز کی تعداد انڈیا کے کل ٹوئٹر صارفین سے تقریباً تین گنا زائد ہے۔ سابق امریکی صدر براک اوباما کے 13 کروڑ 25 لاکھ فالوورز ہیں، جبکہ امریکہ میں ٹوئٹر کے کل صارفین کی تعداد سات کروڑ 78 لاکھ ہے۔

ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک کے فالوورز کی تعداد 14 کروڑ 80 لاکھ ہے لیکن وہ پوری دنیا میں جانے جاتے ہیں، اس لیے یہ مانا جا سکتا ہے کہ ان کے فالوورز پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔

کیا ٹوئٹر پر فالوورز برائے فروخت ہیں؟

امریکہ کے 2016 اور 2020 کے انتخابات میں یہ بات خود امریکی اداروں کی جانب سے سامنے آئی کہ روس امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہوا ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے جو مختلف طریقے استعمال کیے ان میں جعلی ٹوئٹر اکاؤنٹس بھی تھے۔

تاہم انڈپینڈںٹ اردو کے سوشل میڈیا ایڈیٹر ثاقب تنویر کے مطابق امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کا انتخابات کے نتائج یا ووٹرز پر کچھ خاص اثر نہیں پڑا ’اور یہ بات حالیہ کچھ عرصوں میں کی گئی تحقیق سے واضح ہے۔

’جنوری 2023 میں نیویارک یونیورسٹی کی جانب سے جاری تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ روسی مواد کا پھیلاؤ بہت کم امریکی افراد تک تھا اور ان میں سے بیشتر رپبلکن تھے جو پہلے ہی اس جیسے مواد پر یقین رکھتے تھے۔‘

امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی سے وابستہ ایک سینیئر اہلکار ڈان وڈز جو سائبر سکیورٹی کے ماہر ہیں، انہوں نے گذشتہ سال لکھا تھا کہ ٹوئٹر کے 80 فیصد اکاؤنٹس یا تو جعلی ہیں یا مشینی ہیں جنہیں روبوٹس چلا رہے ہیں۔ آپ پیسے دے کر اپنے فالوورز، لائکس اور ری ٹویٹس بڑھا سکتے ہیں۔

تاہم اس کے جواب میں ٹوئٹر کے مالک ایلن مسک نے کہا کہ یہ اکاؤنٹس پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔

باسط علوی آئی ٹی کمپنی برین نیٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔ دنیا کا پہلا کمپیوٹر وائرس انہوں نے 1986 میں بنایا تھا۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ کمرشل ازم کی دنیا ہے اور ’کی بورڈز واریئرز‘ کا زمانہ ہے جسے ہمارے اداروں نے ’ففتھ جنریشن وار‘ کا نام دیا تھا۔

’اس میں لوگوں کے اذہان پر کام کیا جاتا ہے۔ آپ کو کس چیز کی جانب راغب کرنا ہے اور کس چیز سے دور لے جانا ہے، یہ سب کچھ ممکن ہے اور ٹوئٹر اس میں سب سے بڑا ٹول ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ایسی کمپنیاں اور ایپلی کیشنز موجود ہیں جو آپ کے لیے فالوورز بناتی ہیں، آپ کی ٹویٹس کے لائیکس بڑھاتی ہیں اور انہیں ری ٹویٹ کرتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے کمپنیوں کے پاس لاکھوں میں فیک اکاؤنٹس ہوتے ہیں جنہیں روبوٹس چلا رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں کئی سیاسی جماعتیں اور کاروباری ادارے ان کے خریدار ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ٹوئٹر ہمیشہ ایسے اکاؤنٹس کو ڈیلیٹ کرتا رہتا ہے، عموماً ایک سے تین ماہ کے اندر یہ اکاؤنٹس ڈیلیٹ ہو جاتے ہیں لیکن اس سے زیادہ تعداد میں نئے بھی بن جاتے ہیں۔ اگر آپ کو امریکہ کا صدر بننا ہے یا پاکستان کا وزیر اعظم بننا ہے تو اس مقصد کے لیے ان کمپنیوں کا ایک پرائس ٹیگ ہے جس کو ادا کر کے وہ آپ کے لیے یہ کام کر سکتے ہیں۔ یہ بہت مہنگا کام ہے اور اس کے لیے آپ کو کروڑوں روپے درکار ہوتے ہیں لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور لیڈر یہ مہنگا کام کر رہے ہیں۔‘

ثاقب تنویر کے مطابق ذہن سازی میں جہاں ٹوئٹر کا کافی عمل دخل ہے وہاں یوٹیوب سے بھی نظر نہیں چرائی جا سکتی کیونکہ پاکستان میں سیاسی وی لاگز کی اہمیت شاید ٹوئٹر سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ’اگر نو مئی کا ذکر کیا جائے تو اس دن ٹوئٹر کی بجائے یوٹیوب پر میجر (ر) عادل راجہ دیگر ہم خیال اشخاص کے ساتھ گھنٹوں لائیو رہے اور احتجاج پر اثر انداز ہوتے رہے۔‘

فیک نیوز دشمن کا سب سے مؤثر ہتھیار؟

ٹوئٹر کا ہید کوارٹر سان فرانسسکو میں ہے وہاں ہر ملک اور شہر کا جو مواد ٹوئٹر پر اپ لوڈ ہو رہا ہے اس کا ایک ایلگوردم بن رہا ہے۔ اس میں سے کس چیز کو کس وقت آگے لے کر جانا ہے اور کس کو پیچھے رکھنا ہے کس کا ٹرینڈ بنانا ہے یہ سب وہ ایلگوردم طے کرتے ہیں۔

ان ایلگوردمز کو کوئی سمت بھی دی جا سکتی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کے مطابق کوئی بھی غلط خبر کسی بھی جگہ آگ لگا سکتی ہے۔

حسن شبیر جوکو سائبر سکیورٹی کے ماہر اور ڈیٹا انالسٹ ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ امریکہ میں ایک کمپنی کیمبرج اینالیٹیکا ہے جو 2018 میں بند کر دی گئی تھی۔ اسی کمپنی نے سابق امریکی صدر ٹرمپ کے لیے سوشل میڈیا پر مہم چلائی اور حالات کو ان کے حق میں بدل دیا۔ اسی کمپنی کو بریگزیٹ کا بھی ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔

یہاں یہ تفریق کرنا ضروری ہے کہ کیمبرج اینالیٹیکا سکینڈل فیس بک تک محدود تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حسن شبیر نے مزید کہا کہ ’اس کمپنی نے صارفین کا ڈیٹا یا تو خریدا یا چوری کر لیا، جس کو سائکو میٹرکس کہتے ہیں۔ یہ کسی بھی اکاؤنٹ کے سیاسی و سماجی رجحان کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر یہ آپ کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا، ’جس دن ارشد شریف قتل ہوئے اس دن ٹوئٹر پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ کے خلاف ایک ٹرینڈ بنا جس کو شروع پی ٹی آئی نے کیا تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ لاکھوں تک پہنچ گیا۔

’میں نے اس کا جائزہ لینا شروع کیا تو اس میں زیادہ کردار ان اکاؤنٹس کا تھا جو انڈیا سے چلائے جا رہے تھے۔ جب عمران خان نے اس کی مقبولیت دیکھی تو انہوں نے فوج مخالف بیانیہ مزید شدت کے ساتھ شروع کر دیا۔ ان کا خیال بن گیا کہ فوج کے خلاف بات کی جائے تو لوگ اسے زیادہ پذیرائی بخشتے ہیں۔ اسی رجحان کو آپ نے نو مئی کو عروج پر دیکھا۔

’اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں پی ٹی آئی کا جو فوج مخالف بیانیہ ہے اس میں دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ ٹوئٹر کا بھی ہاتھ ہے۔‘

عامر جہانگیر ’مشعل پاکستان‘ کے سی ای او ہیں جو ورلڈ اکنامک فورم کی پاکستان میں نمائندہ تنظیم ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ٹوئٹر پر فیک نیوز کا ٹرینڈ بہت زیادہ ہے جس کے مقابلے میں وہاں بلیو ٹک اکاؤنٹس متعارف کروائے گئے تھے تاکہ لوگ کسی بھی خبر کی تصدیق کے لیے ان اکاؤنٹس پر جا سکیں جو تصدیق شدہ ہیں۔

لیکن اب ٹوئٹر نے بلیو ٹک کو رقم کی ادائیگی سے مشروط کر دیا ہے، گویا کوئی بھی شخص بلیو ٹک خرید کر غلط انفارمیشن پھیلا سکتا ہے اس کے بعد سے ٹوئٹر کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

عامر جہانگیر نے بتایا کہ انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے قومی اور عالمی سلامتی پر ایک کورس کیا تھا جس میں انہیں بتایا گیا تھا کہ فیک نیوز کے ذریعے کسی بھی ملک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں آپ نے حالیہ بحران میں دیکھا کہ کیسے سوشل میڈیا پر پہلے ایک بیانیہ بنایا گیا اور پھر اس کے ذریعے پورے ملک میں آگ لگا دی گئی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ آپ اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کر سکتے ہیں اور دوسروں کے سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کر سکتے ہیں۔ یہ کام اب اتنے بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے کہ سچ کو کشید کرنا بہت مشکل کام بن گیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ