’قاتل پہاڑ‘ جسے کوہ پیما بخوشی سر کرنے آتے ہیں

جرمنی اور فرانس کے دو کوہ پیما ’قاتل پہاڑ‘ کہلائے جانے والے نانگا پربت کو سر کرنے کے لیے چوٹی کے بیس کیمپ میں موجود ہیں اور موسم کی بہتری کا انتظار کر رہے ہیں۔

جرمنی سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما ڈیوڈ گوٹلر(دائیں) اور فرانسیسی کوہ پیما بینجامن ویڈرین (بائیں) نانگا پربت سر کرنے کے لیے موسم کی بہتری کا انتظار کر رہے ہیں(سکرین گریب)

دنیا کی نویں اور پاکستان کی دوسری بلند ترین چوٹی نانگا پربت کو سر کرنا کوہ پیماؤں کے لیے ہمیشہ مشکل مرحلہ رہا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا بھر کے کوہِ پیما اس چیلنج کو بخوشی قبول کرتے ہیں۔ جرمنی اور فرانس کے دو کوہ پیما بھی اس ’قاتل پہاڑ‘ کو سر کرنے کے لیے نانگا پربت بیس کیمپ میں موجود ہیں۔ 

دونوں کوہ پیما 20 مئی کو پاکستان پہنچے جس کے بعد وہ شمالی علاقے کا سفر کر کے روپل وادی میں واقع نانگا پربت کے بیس کیمپ لتابوہ پہنچے، جہاں انہوں نے نانگا پربت کے قدموں میں کیمپ لگائے اور چوٹی سر کرنے کے لیے کیمپ ون سے اوپر کی پریکٹس شروع کی تاکہ ماحول میں رچ بس جائیں۔

جرمنی سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما ڈیویڈ گوٹلر تیسری مرتبہ نانگا پربت کو سر کرنے آئے ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے سردیوں میں دو مرتبہ چوٹی کو سر کرنے کی کوشش کی ۔ پہلی مرتبہ 2014 اور دوسری مرتبہ 2022 میں، لیکن خراب موسم کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکے۔

ڈیویڈ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے آٹھ ہزار میٹر سے بلند چھ پہاڑ سر کر رکھے ہیں اور نانگا پربت کو سر کرنا ان کا خواب ہے جس کی تکمیل کے لیے وہ ایک بار پھر پاکستان آئے ہیں۔‘

فرانس سے آئے کوہ پیما بینجامن نے گذشتہ برس براڈ پیک پر تیز ترین چڑھائی کا ریکارڈ بنایا تھا جس میں وہ سات گھنٹے 28 منٹ میں بیس کیمپ سے براڈ پیک کی چوٹی تک پہنچے تھے۔

بینجامین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک ہفتے تک موسم صاف ہو جائے گا تو امید ہے کہ ہم نانگا پربت کو سر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نانگا پربت کے تین رخ ہیں اور مغربی رخ دیامیر کی طراف سے جانے والا راستہ پہاڑ پر چڑھنے کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔

دوسرا مشرقی رخ رائے کوٹ سے ہے جبکہ تیسرا جنوبی رخ استور میں واقع روپل وادی میں واقع ہے۔

روپل وادی میں پہلا کیمپ ہرلنگ کوفر جبکہ دوسرا کیمپ لتابوہ ہے۔ دونوں کیمپوں سے نانگا پربت سامنے نظر آتا ہے لیکن بادلوں میں لپٹا ہوا۔

نانگا پربت کو قاتل پہاڑ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں برف کے تودے ہر گھنٹے بعد گرتے ہیں جس کے باعث پہاڑ پر چڑھنے والے اکثر ان برفانی تودوں کی زد میں آ کر جان گنوا دیتے ہیں۔ 

نانگا پربت کی بلندی 8126 میٹر ہے۔ کوہِ پیماؤں کے لیے نانگا پربت سر کرنا کسی اعزاز سے کم نہیں ہوتا۔

نانگا پربت کو پہلی مرتبہ آسٹریلیا کے ہیرمن بوہل نے 1953 میں سر کیا تھا، جبکہ 1939 میں آنے والے کوہ پیما جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل