روس، ایران، افغانستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ: پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟

حکم نامے کے تحت افغانستان سے پھل اور گری دار میوے، سبزیاں، دالیں، مصالحے، تیل کے بیج، معدنیات اور دھاتیں، کوئلے کی مصنوعات، ربڑ کا خام مال، کھالیں، کپاس، لوہا اور فولاد منگوائی جا سکتی ہے۔ 

3 دسمبر، 2019: طورخم کے مقام پر پاکستان افغانستان سرحد پر موجود سرحدی چیک پوسٹ جس کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کی جاتی ہے (روئٹرز)

وفاقی وزارت تجارت نے یکم جون کو جاری کردہ اپنے ایک حکم نامے میں ایران، افغانستان اور روس سے بارٹر ٹریڈ (مال کے بدلے مال کی تجارت) کے ذریعے کاروبار کرنے کی اجازت دی ہے جس کے تحت ان ممالک کے ساتھ اشیا کی جاری کردہ فہرست کے مطابق تجارت کی اجازت ہو گی۔ 

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان کے پاس درآمدات کے لیے بمشکل ایک مہینے کے لیے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر رہ گئے ہیں اور حکومت ادائیگیوں کے توازن کے بحران پر قابو پانے اور گذشتہ ماہ تقریباً 38 فیصد تک پہنچنے والی ریکارڈ مہنگائی کے بعد افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے کوشش کر رہی ہے۔

حکم نامے کے تحت افغانستان سے پھل اور گری دار میوے، سبزیاں، دالیں، مصالحے، تیل کے بیج، معدنیات اور دھاتیں، کوئلے کی مصنوعات، ربڑ کا خام مال، کھالیں، کپاس، لوہا اور فولاد منگوائی جا سکتی ہے۔ 

اسی طرح ایران سے پھل، گری دار میوے، سبزیاں، مصالحے، معدنیات اور دھاتیں، کوئلے کی مصنوعات، پٹرولیم، خام تیل، ایل این جی، ایل پی جی، کیمیائی مواد کی متفرق اشیا، کھادیں، پلاسٹک اور ربڑ کی اشیا، کھالیں، خام اون، لوہا اور فولاد شامل ہیں۔ 

روس سے دالیں، گندم، کوئلے کی مصنوعات، پٹرولیم آئل (بمعہ کروڈ)، ایل این جی، ایل پی جی، کھادیں، رنگ روغن کی اشیا، پلاسٹک اور ربڑ، معدنیات اور دھاتیں، لکڑی اور کاغذ، کمیائی مواد، لوہا اور فولاد، ٹیکسٹائل صنعت کی اشیا اور مشینری شامل ہے۔ 

کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر فدا حسین دشتی جو ایران کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کے حامیوں میں سے ہیں اور انہوں نے چیمبر آف کامرس کے ذریعے اس حوالے سے اقدامات بھی کیے تھے، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بہتر قدم ہے جس کے لیے انہوں نے جدوجہد کی تھی۔ 

فدا حسین دشتی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ افغانستان کے ساتھ تجارت کے ساتھ واضح ہو گیا ہے کہ اس کے ساتھ روس کو شامل کرنا بھی فائدہ مند ہے جس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ 

انہوں نے کہا: ’ایران اور افغانستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کے ذریعے ڈالر کی قدر میں کمی میں مدد ملے گی کیوں کہ اس وقت پاکستان سے ڈالر غائب ہے، دوسری طرف اس سے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری سے تجارت میں بھی اضافہ ہوگا۔‘ 

فدا حسین نے کہا کہ ’میں نے خود اس سلسلے میں جدوجہد کی تھی اور میں اس کا بڑا حامی رہا ہوں، ہم نے ایران کے ساتھ اس حوالے سے معاہدہ بھی کرایا تھا۔ روس کو اس معاہدے میں شامل کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ ہماری علاقے سے بہت سی اشیا روس جا رہی ہیں، وہاں سے ہم ایل پی جی، گندم دوسری چیزیں منگوا سکتے ہیں، جس کے ذریعے ہمیں روس سے سستے داموں اشیا مل جائیں گی۔‘

فداحسین نے بتایا: ’بارٹر ٹریڈ کا معاہدہ چھ نومبر 2021 کو ہوا تھا جو 2022 میں مکمل ہوا، سب کچھ مکمل تھا، ہم نے جولائی کے مہینے میں اس پر تجرباتی بنیاد پر کام کرنا تھا، لیکن اس وقت ایک مسئلہ ہوا کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے اس حوالےسے سٹے جاری کیا تھا، تاجروں نے عدالت کے ڈر سے اس کام شروع نہیں کیا۔'  

انہوں نے کہا کہ اب لگتا ہے کہ تمام معاملات درست سمت میں جا رہے ہیں، امید ہے کہ اس سلسلے میں جلد کام شروع ہو جائے گا، بارٹر ٹریڈ کے معاہدات بہت سے ممالک نے کر رکھے ہیں، جیسے ایران اور انڈیا کے درمیان ہے۔  

دوسری جانب ماہر اقتصادیات ڈاکٹر فرخ سلیم سمجھتے ہیں کہ دنیا میں بارٹر ٹریڈ کا زمانہ دو ہزار سال پہلے تھا جو اب ختم ہو چکا ہے جب دنیا میں کرنسی کا وجود نہیں تھا، اس وقت ہم آگے جانے کے بجائے پیچھے جا رہے ہیں۔ 

ڈاکٹر فرخ سلیم نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا، ’ہماری سالانہ تجارت دنیا کے ساتھ 100 ارب ڈالر تک ہے، جن ممالک کے ساتھ تجارت کی جا رہی ہے ان کے ساتھ تجارت میں حصہ تین سے چار فیصد بھی نہیں ہے، میرے نزدیک اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک چھوٹا سا قدم ہے درست سمت میں لیکن اس سے کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہو گی، اس سے پاکستان کے تجارتی خسارے میں کمی ہوگی نہ ہی اس سے ڈالر کی قیمت میں کمی آئے گی۔ 

ڈاکٹرفرخ کے مطابق: ’اس سے نہ ہی ملک میں جو پچاس فیصد مہنگائی ہے اس پر کوئی فرق پڑے گا اور روس سے تیل لینے کے معاملے پر مصدق ملک نے خود ہی کہہ دیا ہے کہ ملک میں تیل کی قیمتوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘ 

انہوں نے کہا: ’بارٹر ٹریڈ کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی ایک کمپنی جو کپڑا بناتی ہے وہ افغانستان میں کوئی کمپنی تلاش کرے گی جو اناربرآمد کرتی ہے، اس کے ساتھ لین کرے گی کہ ہم آپ کو کپڑے دیں گے، آپ ہمیں انار دیدیں ہم کرنسی استعمال نہیں کریں گے۔‘

فرخ سلیم کہتے ہیں کہ ہم افغانستان کے ساتھ ویسے ہی سالانہ ایک ارب ڈالر کی تجارت کر رہے ہیں، تجارت اس ملک سے ہوتی ہے جس کو اس چیز کی ضرورت ہو جیسے پاکستان میں کپڑا زیادہ بنتا ہے، دو تہائی برآمد اسی کی ہوتی ہے، کپڑ ے کے خریدار یورپی یونین اور امریکہ ہیں، ان کے ساتھ کوئی تجارت ہونی چاہیے۔ 

انہوں نے کہا کہ جن ممالک کے ساتھ بارٹر ٹریڈ ہو رہا ہے، ہم نے گذشتہ پچاس سالوں میں ان کے ساتھ کوئی تجارت نہیں کی، اگر ایران کے ساتھ تجارت شروع کی جاتی ہے تو اس کے جواب میں پابندیوں کا سامنا کون کرے گا؟ کیا اس کے فائدے اور مضمرات پر بھی غور ہوا ہے؟‘ 

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت