پاکستان، چین تجارت کے لیے بارڈر پاس کا اجرا شروع: جی بی حکومت

گلگت بلتستان کے سیکریٹری داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ تین اپریل سے دونوں ملکوں کے درمیان باضابطہ تجارت شروع کی جا رہی ہے۔

پاکستانی مسافر 29 ستمبر، 2015 کو وادی گوجل کی سرنگ کھلنے کے منتظر ہیں (اے ایف پی)

پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی اور سفری سرگرمیوں کی بحالی کے فیصلے کے ساتھ ہی گلگت بلتستان حکومت نے تاجروں سے بارڈر پاس (سرحدی اجازت ناموں) کی درخواستیں وصول کرنا شروع کر دی ہیں۔

دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان درہ خنجراب کے ذریعے تجارت چار سال سے معطل ہے۔

گلگت بلتستان کے سیکریٹری داخلہ رانا محمد سلیم افضل نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ تین اپریل سے دونوں ملکوں کے درمیان باضابطہ تجارت شروع کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تجارت کی بحالی کے فیصلے کے ساتھ ہی تاجروں نے بارڈر پاس کے لیے درخواستیں دینا شروع کر دی ہیں۔

’ہمارے محکمہ داخلہ نے تاجروں کی درخواستیں وصول کرنا شروع کر دی ہیں۔‘

سینیئر صحافی خالد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تمام اضلاع کے بزنس چیمبرز نے تاجروں کو تجارت سے متعلق اہم دستاویزات جمع کرانے کا کہا ہے۔

ان کے بقول چار سالہ وقفے سے مقامی تاجر دیوالیہ ہو رہے تھے کیونکہ بارڈر پاس سے تین لاکھ خاندان گلگت بلتستان سے چین سے تجارت میں حصہ لیتے ہیں۔

پاکستان اور چین کے قریبی سرحدی شہر ہنزہ سے تعلق رکھنے والے ایک اور صحافی علی احمد کا کہنا تھا کہ پیر سے باضابطہ تجارت کی اجازت دی جا رہی ہے، تاہم یہ سلسلہ عید کے بعد ہی شروع ہو سکے گا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ جو تاجر رمضان کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کرنا چاہیں گے انہیں ایسا پاسپورٹ کے ذریعے کرنا ہو گا۔

سیکریٹری داخلہ کا کہنا تھا کہ سرحد کھل جانے کی صورت میں دونوں اطراف سے وفود کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔

پاکستان اور چین کے درمیان درہ خنجراب کے راستے تجارتی سرگرمیاں نومبر 2019 میں کرونا  وبا کے باعث بند کر دی گئی تھیں۔

رانا محمد سلیم افضل کا کہنا تھا کہ بندش کے باوجود اس عرصے کے دوران دونوں اطراف سے ٹرالرز کے ذریعے آمد و رفت ہوتی رہی۔

’چار سال بعد چینی حکام نے کہا ہے کہ اب نارمل حالات میں تجارت کو کووڈ سے پہلے کی طرح دوبارہ شروع کیا جا سکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ تجارت کی بحالی کے لیے تقریب کا انعقاد چین میں ہونا تھا تاہم نامعلوم وجوہات کہ بنا پر اسے منسوخ کر دیا گیا ہے۔

’اب تین اپریل سے باضابطہ طور پر تجارت شروع ہو گی، جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ گلگت بلتستان کی عوام کو بھی فائدہ ہو گا۔ اس سے پاک چین باہمی تجارت کو فروغ ملے گا۔‘

پاکستانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ایک معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے درمیان خنجراب پاس کے ذریعے تجارتی سرگرمیاں اپریل سے نومبر تک جاری رہیں گی۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت چین اور پاکستان کے درمیان پہلی تجارتی سرگرمی نومبر 2016 میں قراقرم ہائی وے کے ذریعے شروع ہوئی تھی، شاہراہ ریشم بھی کہلائی جانے والی یہ سڑک خنجراب پاس سے گزرتی ہے۔

سیکریٹری داخلہ رانا محمد سلیم افضل نے کہا کہ جلد ہی سرحدی پاس (بارڈر کراس کرنے کا اجازت نامہ) جاری کرنے کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ سی پیک روٹ ہے اور اسی بیلٹ اینڈ روڈ اینیشی ایٹو کے تحت تجارتی کھیپ چین سے خنجراب پاس کے ذریعے پاکستان میں داخل ہو گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سی پیک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اینیشی ایٹو کا فلیگ شپ منصوبہ ہے جس کے تحت بیجینگ پاکستان میں 65 ارب ڈالر سے پاکستان میں سڑکوں، ریلوے، پائپ لائنوں اور بندرگاہوں کا نیٹ ورک قائم کر رہا ہے۔

اس اینیشی ایٹو کا مقصد چین کو پاکستان کی بندرگاہوں سے جوڑنا اور اسلام آباد کو اپنی معیشت کو وسعت دینے اور جدید بنانے اور توانائی کی اہم ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ، افریقہ اور وسطی ایشیا کے لیے چینی تجارتی سامان کے لیے مختصر ترین راستہ فراہم کرنا ہے۔

پاکستانی میڈیا نے پاکستانی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’وفاقی حکومت سی پیک سرگرمیوں کی بحالی کے لیے کام کر رہی ہے اور دو طرفہ تجارت کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کر دیا جائے گا۔‘

خنجراب پاس کی طویل بندش سے مقامی تاجر برادری کو بہت زیادہ مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس سے ہزاروں مزدوروں بے روزگار بھی ہو گئے تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس اہم سرحدی گزرگاہ کو گذشتہ تین سالوں کے دوران بعض اوقات مخصوص چند دنوں کے لیے ہی چین سے پاکستان کے لیے ہنگامی کارگو کی نقل و حمل کے لیے کھولا گیا تھا۔

سی پیک کے تحت دوطرفہ تجارت اور دیگر سرگرمیوں کے لیے اس سرحدی گزرگاہ کو دوبارہ کھولنے کے لیے دونوں جانب سے تمام انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت