نااہلی برقرار: کیا جہانگیر ترین اپنی پارٹی کو مستحکم کر سکیں گے؟

نئی جماعت کی تشکیل کے وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ نے تاحیات نااہل قرار دے رکھا ہے، تو وہ کس طرح ایک نئی سیاسی جماعت کو فعال بنا سکتے ہیں؟

پارٹی کا اعلان تو کر دیا گیا ہے مگر پارٹی میں شامل ہونے والے پی ٹی آئی کے سابق رہنما ناخوش دکھائی دیے ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ایک اور نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس پارٹی کی بنیاد تحریک انصاف کے سابق جنرل سیکریٹری جہانگیر خان ترین گروپ نے رکھی ہے۔

نو مئی کے بعد پی ٹی آئی چھوڑنے والے متعدد اہم رہنما بھی اس پارٹی کا حصہ بن گئے ہیں۔

پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے جنم لینے والی اس سیاسی جماعت کی کامیابی سے متعلق کئی سوالات بھی جنم لے رہے ہیں۔ ان میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طرح جہانگیر ترین کو بھی سپریم کورٹ نے تاحیات نااہل قرار دے رکھا ہے، تو وہ کس طرح ایک نئی سیاسی جماعت کو فعال بنا سکتے ہیں؟ یہی نہیں بلکہ ان کی پارٹی سربراہی بھی عدالت میں چیلنج ہو سکتی ہے۔

اس ساری صورت حال میں جہانگیر ترین نے نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی کے قیام کا اعلان کر دیا ہے تاہم عہدیداروں کا اعلان اور پارٹی منشور بعد میں پیش کیا جائے گا۔

ابھی تک یہ پارٹی الیکشن کمیشن میں بھی رجسٹرڈ نہیں ہوئی، جس پر اب کام شروع ہو گا۔

جلد بازی میں پارٹی کا اعلان تو کر دیا گیا ہے مگر پارٹی میں شامل ہونے والے پی ٹی آئی کے سابق رہنما ناخوش دکھائی دیے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ استحکام پاکستان پارٹی کس حد تک کامیاب ہو سکے گی، البتہ ماضی کی طرح اس بار پی ٹی آئی کے اراکین اور رہنماؤں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا گیا ہے۔

 پارٹی کی لانچنگ اور ترین کی نااہلی

ویسے تو جہانگیر ترین گروپ نے پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے منحرف اراکین سے جنم لیا تھا اور ن لیگ نے پنجاب کے ضمنی الیکشن میں انہی منحرف ہونے والے 20 اراکین کو ٹکٹ جاری کیے تھے مگر ان میں بیشتر کو شکست ہو گئی تھی۔

اس کے بعد ترین گروپ نو مئی کے واقعات رونما ہونے کے فوری بعد منظر عام پر آیا اور میل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

جہانگیر ترین اور علیم خان کی قیادت میں اس گروپ میں پی ٹی آئی چھوڑنے والے سابق اراکین اسمبلی اور اہم رہنما اچانک شامل ہونا شروع ہو گئے۔

رواں ہفتے ہی ملاقاتیں اور شمولیتیں سامنے آئیں اور جمعرات کو استحکام پاکستان پارٹی کے نام سے یہ گروپ سیاسی جماعت میں بدل گیا۔

ابھی نہ پارٹی کے عہدیداروں کا اعلان کیا گیا ہے نہ ہی پارٹی کی رکنیت شروع کی گئی، نہ منشور باقاعدہ تیار ہو سکا ہے، حتیٰ کہ الیکشن کمیشن میں بھی اب تک پارٹی رجسٹرڈ ہو سکی۔

اس بارے میں انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے استحکام پاکستان پارٹی کی رہنما فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ جلد ہی پارٹی کی رکنیت شروع ہو گی، عہدیداروں کا اعلان بھی مشاورت سے کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ جماعت کی رجسٹریشن کا عمل بھی جاری ہے جلد مکمل ہو جائے گا۔

اس صورت حال کے باوجود بہرحال جماعت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا ہے جو کہ صحافی گوہر بٹ کے بقول جلد بازی میں کیا گیا ہے اور پارٹی کی لانچنگ بھی متاثر کن دکھائی نہیں دی، اس لیے آنے والے دنوں میں منظم جماعت بنانے کے لیے کافی محنت درکار ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ اس جماعت کی کامیابی کا اندازہ انتخابات میں نشستوں کی تعداد سے ہی لگایا جا سکے گا۔

فردوس عاشق اعوان سے پوچھا گیا کہ جہانگیر ترین کو عدالت نے نااہل قرار دے رکھا ہے ایسے میں وہ جماعت کی قیادت کیسے کریں گے؟

انہوں نے جواب دیا، ’فیصلے میں عدالت نے یہ کہیں لکھا کہ وہ پارٹی کی قیادت نہیں کر سکتے یا پارٹی کے قیام میں کردار ادا نہیں کر سکتے۔ البتہ علیم خان بھی موجود ہیں عہدیداروں کا اعلان جلد کیا جائے گا اور اس بات کا خیال رکھا جائے گا۔‘

پارٹی کی سیاسی ساکھ

تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق ابھی اس جماعت کی سیاسی اہمیت اور دوسری پارٹیوں کو ٹف ٹائم دینے کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ابھی تک جو لوگ شامل ہوئے ہیں اندازہ نہیں کہ ان کو کن آفرز کے تحت شامل کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے معاون خصوصی وزیر اعظم عطا تارڑ نے اسلام آباد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’مسلم لیگ ن کو استحکام پاکستان پارٹی سے کوئی خطرہ نہیں بلکہ اس جماعت کے بنانے والے جہانگیر ترین اور علیم خان کے ہمارے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، وزیر اعظم کے مشیر عون چوہدری بھی پارٹی کے بانیوں میں شامل ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’انتخابات میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس پارٹی کے امیدواروں اور ن لیگ کے امیدواروں میں جن نشستوں پر مقابلہ ہو گا تو دونوں مشاورت سے ایک امیدوار لائیں۔‘

انہوں نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے کہا یہ ابھی طے نہیں ہوا کہ طریقہ کار کیا ہو گا۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے بھی اسلام آباد عدالت پیشی کے موقعے پر کہا کہ وہ پی ٹی آئی چھوڑ کر استحکام پاکستان میں جانے والوں کی کامیابی کے لیے نیک خواہشات رکھتے ہیں، البتہ الیکٹیبلز پارٹیوں کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ نہیں کرتے عوام کرتی ہے۔

گوہر بٹ نے کہا کہ ’ابھی تو پارٹی کی ابتدا ہے لیکن بظاہر لگتا ہے کہ ابھی صرف تحریک انصاف چھوڑنے والوں کے لیے پلیٹ فارم مہیا کیا گیا ہے۔ پارٹی میں اب تک شامل ہونے والوں سے یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ یہ جماعت بھر پور طریقے سے علیحدہ حیثیت میں الیکشن لڑنے کی پوزیشن حاصل کر پائے گی۔‘

پی ایس پی اور آئی پی پی میں مماثلت

سلمان غنی کے بقول ’استحکام پاکستان پارٹی بنانے کا مقصد پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کو پلیٹ فارم مہیا کرنا نیا کام نہیں۔ اس سے پہلے مشرف دور میں پیپلز پارٹی سے پی پی پی پیٹریاٹ نکالی گئی۔ اس سے قبل ن لیگ سے ق لیگ نکالی گئی تھی، جس میں مشرف دور میں ان لوگوں کے خلاف کارروائی روکی گئی جو ن لیگ چھوڑ کر ق لیگ میں آئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’خاص طور پر ایم کیو ایم کے خلاف جب نواز شریف دور میں کارروائی ہوئی تو نہ صرف ایم کیو ایم لندن اور پاکستان بنی پھر پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی) بنائی گئی، جس میں ایم کیو ایم چھوڑ کر شامل ہونے والوں کو رہائی ملی اور مقدمات ختم ہوئے۔ اب پی ٹی آئی کو توڑنے کے لیے استحکام وجود میں آ گئی لہٰذا پی ٹی آئی کے گرفتار رہنماؤں کو بھی پی ٹی آئی چھوڑنے کی صورت میں رہائی مل رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ استحکام پاکستان پارٹی سیاسی جماعتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ جمہوری دور میں بھی وہی سیاسی حربے استعمال ہو رہے ہیں جو آمریت کے زمانے میں ہوتے آئے ہیں۔

ان کے بقول ’ترین گروپ پر مشتمل پارٹی الیکشن میں اگر 25  سے 30 نشستیں ملک بھر میں یا پنجاب میں لینے میں کامیاب ہو گئی تو یہ دونوں بڑی جماعتوں کے لیے پریشر گروپ بن سکتا ہے۔‘

ان کے خیال میں ’جہانگیر ترین کی نااہلی کا فیصلہ نواز شریف کے فیصلے سے مختلف نہیں ہے۔ اس لیے یہی رائے پائی جاتی ہے کہ ترین کو الیکٹیبلز کو ساتھ ملانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پہلے ان کا طیارہ عمران کے لیے الیکٹیبلز اکٹھے کرنے کے لیے اڑتا تھا، اب استحکام پاکستان پارٹی کے لیے پرواز بھرے گا۔ یہ سب حربے جمہوریت کی کمزوری ہیں اور پارلیمنٹ میں ایک مرتبہ پھر مخلوط حکومت بنانے کی کوشش لگتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست