پاکستان میں ٹی وی دیکھنے والے ناظرین کے لیے ژالے سرحدی کا نام ہرگز اجنبی نہیں ہے۔ وہ پاکستانی ٹیلی ویژن میں اپنے منفرد انداز و شخصیت سے اپنا الگ ہی مقام بنا چکی ہیں۔
ژالے کی خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ لگی لپٹی رکھنے والوں میں سے بالکل نہیں، وہ سیدھی اور صاف بات کرنے کی عادی ہیں۔
یوں تو وہ ہر سال دو سے تین ڈراموں میں ضرور کام کرتی ہیں، لیکن اس بار ڈراما سیریل ’گرو‘ میں ان کا کردار کافی اہم اس لیے ہے کہ اس میں وہ ایسی ماں کا کردار کر رہی ہیں جس کے سسرال والے بیٹی کے سخت خلاف ہیں اور بیٹے کی خواہش میں دیوانے ہوئے بیٹھے ہیں۔
اتفاق سے مزاحیہ پروگرام ’بس کر‘ کے سیٹ پر گزشتہ دنوں اظفر علی نے مجھے بلایا تو مہمان ژالے سرحدی تھیں۔
بس ہم نے موقع غنیمت جانا اور جیسے ہی پروگرام ختم ہوا، پہلے ژالے سے انٹرویو کی اجازت لی، پھر اظفر سے ان کا سیٹ استعمال کرنے کی اجازت مانگی اور جھٹ شروع ہو گئے۔
کیونکہ سیٹ اتنا رنگ برنگا اور بقعہ نور بنا ہوا تھا کہ ہم نے سوچا اس سے اچھی جگہ کیا ملے گی۔
ژالے عام طور پر اداکاری پر ہی انحصار کرتی ہیں اور اس طرح کے شوز میں کم کم ہی جاتی ہیں۔
ہم نے پہلا سوال ان کے ڈرامے ’گرو‘ کے بارے میں پوچھا، جس پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس ڈرامے میں دو متوازن کہانیاں چلتی ہیں جو آگے جا کر ایک ہو جاتی ہیں۔‘
اپنے کردار کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک ایسی عورت کا کردار کر رہی ہیں جسے اس کے سسرال والے اس بات کا قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ وہ صرف بیٹیاں ہی پیدا کرتی ہے۔‘
ان کے مطابق ’اگرچہ یہ بات اب سائنس نے ثابت کر دی ہے کہ بچے کی جنس اس کے باپ سے ملتی ہے، ماں سے نہیں پھر بھی وہ لوگ یہ نہیں سمجھتے۔ یہ اس طرح کی کہانی ہے جس کو عوام ضرور پسند کریں گے۔‘
ژالے نے زور دیا کہ مختلف موضوعات پر ڈرامے بنائے جانے ضروری ہیں۔ اس وقت ڈراما صرف شادہ شدہ لوگوں کے شریک حیات کے علاوہ دیگر افراد سے معاشقوں میں پھنس کر رہ گیا ہے جس سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔‘
ژالے نے کہا کہ ’گرو‘ میں ان کا کردار کسی مظلوم عورت کی کہانی نہیں بلکہ اپنے حالات سے نبرد آزما ایک عورت کی کہانی ہے، جسے ہر جگہ سے ٹھوکر ملتی ہے مگر پھر بھی وہ جو چاہتی ہے اسے پانے کی کوشش کرتی ہے، تو ایک لحاظ سے ہے کافی حوصلہ افزا بات بھی ہے۔
’صرف مسئلہ نہیں بتایا گیا، بلکہ اس کے حل پر بھی بات کی گئی ہے جو زیادہ اہم ہے۔‘
ٹی وی کی کامیاب اداکارہ ہوتے ہوئے بھی ژالے نے اب تک صرف چار فلموں میں کام کیا ہے جس کی وجہ ان کے مطابق انہیں فلمیں کم ہی ملی ہیں اگرچہ انہیں بڑے پردے پر کام کرنے میں مزہ آتا ہے۔
ژالے نے بتایا کہ ’ان کی ایک فلم کرونا کی عالمی وبا کی نظر ہو گئی ہے اور دوسری کی پروڈکشن مکمل نہیں ہوئی ہے۔ ان کے خیال میں یہ کہیں نا کہیں قسمت کی بھی بات ہوتی ہے۔‘
انہوں نے فلموں میں ایک بڑھئی، ایک ڈانسر اور ایک گینگسٹر کا کردار کیا ہے۔ اب وہ سمجھتی ہیں کہ انہیں کوئی راک سٹار کا کردار دے تو مزہ آئے۔
ژالے کے مطابق انہیں فلموں میں روایتی کردار کرنے کا شوق نہیں کیونکہ یہ کام ٹی وی پر کر لیتی ہیں، اس لیے جب فلم ہو تو کوئی غیر روایتی کردار ہونا چاہیے۔
ژالے نے اپنا کیرئیر میزبانی سے شروع کیا تھا، اب وہ میزبانی کم کم ہی کرتی ہیں، اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ ’لگتا ہے کہ اب خود ہی کچھ بنانا پڑے گا کیونکہ جو کام میں کرنا چاہتی ہوں وہ اب ہو نہیں رہا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنی خواہشات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک خلا باز کا کردار کرنا چاہتی ہیں جو شاید ہو نہ سکے، اس کے علاوہ وہ مستقبل میں ایک راک سٹار کا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں۔
یہاں انہوں نے واضح کیا کہ ’گرو‘ کا کردار ایک مرد کا ہے جو ایک عورت کی حیثیت سے خود کو منوانا چاہتا ہے۔ وہ ایک ایسی عورت کا کردار کرنا چاہتی ہیں جو ایک مرد سے خود کو شناخت دینا چاہتی ہو۔
پاکستان میں خواتین اداکاروں کی سوشل میڈیا پر جاری ٹرولنگ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اداس لوگوں کا کام ہے کہ جو اپنی زندگی میں فارغ بیٹھ کر دوسرے پر جملے کس رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے سوشل میڈیا سے بریک ضروری ہے اور زیادہ ہو تو کمنٹ بند کردیں۔‘
پاکستانی ڈرامے کے مسائل پر بات کرتے ہوئے ژالے کا کہنا تھا کہ ’ہمارے یہاں ایک عمر کے بعد کردار لکھے نہیں جاتے۔ لڑکی کا سب سے بڑا مسئلہ اس کی شادی ہوتا ہے اور حقیقت میں ایک عمر کے بعد شادی مسئلہ نہیں ہوتی زندگی میں دوسرے بھی مسائل ہوتے ہیں۔ اگر مختلف عمر کے لوگوں کی کہانیاں سنانا شروع کردیں تو یہ مسائل ختم ہوجائیں گے۔‘
آخر میں ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں ذہنی بیماری کو ہلکا سمجھا جاتا ہے، جبکہ ہر چیز کے ڈاکٹر ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’جب انہیں ہائپر تھائیرائڈ ہوا تھا تو انہوں نے بھی ماہرین سے رابطہ کر کے مدد لی تھی اور دوسروں کو بھی یہ کرنا چاہیے۔‘