دکی: 43 دن سے پھنسے کان کنوں کے عزیز اپنے پیاروں کے منتظر

چار مئی کی دوپہر دکی کے علاقے معراج میں تیز بارش کے ساتھ ژالہ باری بھی ہوئی تھی جس کے باعث کچھ ہی دیر میں پہاڑوں سے سیلابی پانی کا ریلہ کوئلے کی کانوں کے طرف آیا تھا جس کے کان میں پانی بھر گیا تھا۔

بلوچستان کے شمال مشرق میں واقع ضلع دکی کے علاقے معراج میں 45 سالہ عبدالبصیر  کان کنوں کی رہائش کے لیے بنائے گئے ایک عارضی کمرے میں اپنے بھائی شراف خان اور چچا زاد بھائی عبدالباقی کا انتظار کر رہے ہیں۔

یہ دونوں افراد جو پیشے کے اعتبار سے کان کن ہیں 43 دن قبل تقریباً 900 فٹ گہری کان میں پھنس گئے تھے اور تاحال نکل نہیں پائے ہیں۔

عبدالبصیر کہتے ہیں کہ چار مئی کو پھنسنے والے ان کے بھائی اور چچا زاد کے غم اور تڑپ نے سب کچھ بھلا دیا ہے۔ ’وہ تو زمین کے اندر پھنسے ہیں مگر ہمیں یہاں زمین کے اوپر بھی چین و سکون نہیں ہے۔ کہیں بھی آرام نہیں۔‘

چار مئی کی دوپہر دکی کے علاقے معراج میں تیز بارش کے ساتھ ژالہ باری بھی ہوئی تھی جس کے باعث کچھ ہی دیر میں پہاڑوں سے سیلابی پانی کا ریلہ کوئلے کی کانوں کے طرف آیا تھا جس سے کان میں پانی بھر گیا تھا۔

عبدالبصیر نے بتایا کہ شراف اور ان کے ساتھی تیز بارش سے بے خبر سینکڑوں فٹ اندر کھدائی کر رہے تھے۔

عبدالبصیر بتاتے ہیں کہ ان کے آٹھ بھائی اور رشتے دار پچھلے 40 سے زائد دنوں سے مسلسل یہاں دن و رات شدید کرب میں گزارنے پر مجبور ہیں۔

’ہم نے گھر میں کسی کو خبر نہیں دی ہے کہ عبدالباقی پھنس گئے ہیں۔ ہم کبھی کبھار جب گھر جاتے ہیں تو والدہ پوچھتی ہیں کہ کیا ہوا ہے کہ سب مرد گھر سے نکل گئے ہیں، پہلے پہل تو مزدوری کا بہانہ بناتے تھے اب کچھ دنوں سے جرگے کا بہانہ بنا رہے ہیں کہ شہر سے دور گئے ہیں مگر عید آنے والی ہے جس کے لیے ہم سب پریشان ہیں۔

’عبدالباقی چھوٹی عید پر بھی زیادہ دہاڑی کی لالچ میں گھر نہیں گیا تھا اب اگلی عید پر کیا جواب دیں گے، ہم تو دعا کرتے ہیں کہ خدا عید سے قبل ہی اس کی ہڈیاں ہمیں دے دے تاکہ گھر میں آنے والا غم ایک ہی بار ہو۔‘

مزدوروں اور پھنسے ہوئے کان کنوں کے خاندان کی طرف سے اپنی مدد آپ کے تحت جاری ریسکیو آپریشن میں چھ چھ گھنٹوں پر مشتمل چار شفٹوں میں مسلسل 24 گھنٹے کام جاری رہتا ہے اور ہر شفٹ میں رضا کارانہ طور پر کام کرنے والے آٹھ سے 12 مزدور ہوتے ہیں جن میں چار سے چھ کان کن، لوڈرز اور انجن چلانے والے شامل ہوتے ہیں۔

شراف خان کے بہنوئی زین اللہ نے بتایا کہ ’شراف خان اور عبدالباقی کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی آزمائش میں پڑگئے ہیں۔

’ہم پچھلے ڈیڑھ مہینے سے یہاں بغیر کسی معاوضے کے کام کر رہے ہیں عید آنے والی ہے ہم سے ہمارے بچے عید کے کپڑے اور آٹا مانگیں گے اور ان کے بچے اپنے والد کو مانگیں گے۔ اسی طرح پھنسے ہوئے کان کنوں کے رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ سارے مزدور ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہوگئے ہیں، چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہے۔‘

دکی کی 1400 سے زائد کانوں کے انتظامی امور سنبھالنے والے تین میں سے ایک مائنز انسپیکٹر مقصود احمد حسنی نے بتایا کہ معراج کی زیادہ تر کوئلے کی کانیں سخت اور پتھریلی ہونے کے بجائے مٹی کی ہیں جس میں پانی بھر جانے اور کان منہدم ہونے کے سبب سب کچھ کیچڑ بن چکا ہے۔

حسنی نے مزید بتایا کہ ’مائنز محکمے کے پاس ریسکیو آپریشن کے لیے نہ ہی کوئی مشینری ہے اور نہ ہی کوئی سالانہ بجٹ منظور ہوتا ہے۔‘

مقصود احمد بتاتے ہیں کہ 40 سال قبل بھی دکی میں کوئلے کی ایک کان میں اسی طرح سات کان کن پھنس گئے تھے جن میں سے تین کی لاشوں کو چار سال بعد نکالا گیا جبکہ بقیہ کو ابھی تک نہیں نکالا جاسکا ہے۔

‎بلوچستان میں کوئلے کی کانوں کی تعداد

آل پاکستان لیبر فیڈریشن کی رپورٹس کے مطابق بلوچستان بھر میں اس وقت 3800 سے زائد کویلے کانیں فعال ہیں جن میں ایک لاکھ سے زائد مزدور ہر سال ایک کروڑ ٹن سے زائد کوئلہ نکالتے ہیں۔

صرف بلوچستان سے نکالے جانے والا کوئلہ پاکستان میں سالانہ بنیاد پر نکالے جانے والے کل کوئلے کا 50 فیصد سے زائد بنتا ہے۔

محکمہ معدنیات بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق لورالائی، دکی، بولان اور زیارت سمیت بلوچستان کے سات اضلاع میں مجموعی طور پر 268 ملین ٹن کوئلہ موجود ہے۔

مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے کمشنر مائنز انور جان مندوخیل کے مطابق بلوچستان حکومت ہر سال 60 لاکھ کا فنڈ مزدوروں کی صحت اور بنیادی طبی امداد کے لیے خرچ کرتی ہے جس سے کان کنوں کو بلوچستان کے مختلف اضلاع میں 25 ڈسپینسریز، مارواڑ میں 25 بیڈز کا ہسپتال اور مچھ میں ایک بی ایچ او میں صحت کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انور جان مندوخیل کہتے ہیں کہ ان کے محکمے کے پاس صرف 27 مائنز انسپکٹرز ہیں جو کانوں میں حفاظتی معیارات کی نگرانی کرتے ہیں جن کو بہتر بنانے کے لیے انہوں نے کو ششیں کی ہیں مگر ابھی تک کامیابی نہیں ملی ہے۔

پاکستان میں مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم آل پاکستان لیبر فیڈریشن کے مطابق بلوچستان بھر میں ہزار سے زائد کوئلے کی ایسی غیر قانونی کانیں ہیں جن میں مسلسل کھدائی جاری رہتی ہے۔

پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری لالا سلطان نے بتایا کہ کول مائنز کی تعداد اس لیے بھی کم بتائی جاتی ہیں کہ بلوچستان میں ہزاروں کول مائنز ٹھیکدار بغیر رجسٹریشن اور کسی اندراج کے کوئلہ نکال رہے ہیں جن سے نہ صرف روزانہ کے بنیاد پر ہزاروں ٹن کوئلہ بغیر کسی ٹیکس کے فروخت کیا جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جب کوئی حادثہ پیش آ جاتا ہے تو چھپایا جاتا ہے یا پھر رپورٹ ہی نہیں کیا جاتا۔

لالا سلطان کے مطابق سال 2022 میں پاکستان بھر میں 288 کان کن حادثات میں جان سے گئے جس میں سب سے زیادہ یعنی 166 کان کنوں کا تعلق بلوچستان سے تھا۔

بلوچستان میں محکمہ مائنز کے چیف انسپیکٹر غنی بلوچ نے بتایا کہ جانے سے جانے والے مزدوروں کی تعداد ہمیشہ زیادہ بتائی جاتی ہے۔ غنی بلوچ کے مطابق رواں سال کے پانچ مہینوں کے دوران بلوچستان کی کوئلے کی کانوں میں 18 حادثات ہوئے جن میں سے 24 کان کنوں کی موت واقع ہوئی ہے۔

بلوچستان میں اب بھی 1923 کے مائنز ایکٹ کے تحت کان کنی کے دوران کسی بھی حادثے میں مرنے والے مزدور کے خاندان کو کان کا مالک اور ٹھیکدار پانچ سے آٹھ لاکھ اور حکومت تین سے پانچ لاکھ معاؤضہ دینے کی پابند ہوتی ہے۔

کان کنوں کو حادثات کے علاوہ لاحق خطرات

حادثات کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے کان کنوں کو مسلح تنظیموں سے بھی خطرات لاحق ہیں۔ بلوچ علاقوں میں فعال مسلح تنظیمیں کوئلے کی کانوں اور ان کے کان کنوں کو اس الزام میں بھی نشانہ بناتے ہیں کہ وہ بلوچستان کی معدنیات فروخت اور منتقل کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔

سن 2023 کے شروع میں پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ہیومن رائٹس کمیشن نے 2022 میں بلوچستان کی کانوں میں ہونے والے حادثات کے تناظر میں اپنی ’فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ‘ میں تشویش کا اظہار کیا تھا اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ مرکزی اور وفاقی حکومت دونوں کان کنوں کی حفاظت کے لیے عالمی قوانین پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان