پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) میں شامل سیاسی جماعتوں کے اراکین نے گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی کے خلاف بیانات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور بعض حلقوں کی جانب سے انہیں ہٹانے کا مطالبہ بھی سامنے آ رہا ہے۔
جمیعت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے گورنر خیبر پختون خوا حاجی غلام علی کے برخوردار صوبائی دارالخلافہ پشاور کے میئر بھی ہیں۔
حاجی غلام علی کا تعلق ایک کاروباری گھرانے سے ہے اور اس سے قبل وہ خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے نائب صدر بھی رہ چکے ہیں۔
گورنر پر تنقید کرنے والوں میں وفاق میں حکمران اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما بھی شامل ہیں، جو گورنر پر بغیر مشاورت کے فیصلے کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
اختیار ولی پاکستان مسلم لیگ ن کے سابق رکن خیبر پختونخوا اسمبلی ہیں اور خیبر پختونخوا سے اپنی جماعت کی میڈیا پر نمائندگی بھی کرتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گورنر ہاؤس خیبر پختونخوا کے اختیارات اور وسائل کی تقسیم کا مرکز ہوتا ہے اور صوبے میں موجودہ گورنر پی ڈی ایم کا ہے۔
تاہم اختیار ولی کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنان ان سے سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہیں؟ (کہ گورنر فصیلوں میں ہمیں شامل نہیں کرتے۔)
اختیار ولی نے بتایا: ’کارکنان کو محسوس ہونا چاہیے کہ ہم پی ڈی ایم کا حصہ ہیں اور گورنر کی جانب سے کارکنان کے تحفظات دور کرنے چاہیے۔‘
اختیار ولی نے مزید بتایا کہ انہوں نے بار بار گورنر کے سامنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ’گورنر کو سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے اور ہمیں امید ہے کہ اس حوالے سے اقدامات اٹھائے جائیں گی۔‘
گورنر خیبر پختون خوا حاجی غلام علی پر حکومتی معاملات میں دخل اندازی، پوسٹنگز ٹرانسفرز اور پسند ناپسند کی بنیاد پر حکومت کے امور میں ہاتھ ڈالنے کا الزام ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے علاوہ صوبے میں قوم پرست سیاسی جماعت اور پی ڈی ایم میں شامل عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی )نے بھی گورنر کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ایسی خبریں بھی سامنے آ چکی ہیں کہ اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے چند روز قبل وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات میں گورنر خیبر پختون خوا حاجی غلام علی کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سردار حسین بابک اے این پی کے مرکزی رہنما اور سابق صوبائی وزیر ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گورنر کو چاہیے کہ وہ صوبے کے گورنر بنیں مہ کہ کسی خاص جماعت کے۔
انہوں نے بتایا کہ گورنر کی جانب سے پوسٹنگز ٹرانسفرز میں ذاتی دلچسپی لینا، اور گورنر ہاؤس کو کسی خاص پارٹی کا ہاؤس بنانا گورنر کے منصب کے مطابق نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سردار بابک نے بتایا: ’گورنر کا کام یہ بھی ہے کہ وہ صوبے میں گذشتہ نو سالوں میں ہونے والی کرپشن کے لیے گورنر انسپیکشن ٹیم کو فعال بنائیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ملک کے اندر اقتصادی اور سیاسی بحران کے حل کے لیے پی ڈیم ایم بنی ہے، تو گورنر کو اس اتحاد کا بھی خیال رکھنا چاہیے کیونکہ یہ گورنر صوبے کا گورنر ہے اور پسند نا پسند کی بنیاد پر فیصلے نہ کریں۔
پشاور میں مقیم صحافی محمود جان بابر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ صوبے میں موجودہ گورنرشپ کی جو صورتحال ہے یہ ماضی میں نہیں دیکھا گیا۔
محمود جان بابر نے بتایا کہ ابھی اگر کسی شخص نے ٹرانسفر بھی کرانا ہے تو یہ معلوم راز ہے کہ اسے جمعیت علمائے اسلام کے دفتر جانا پڑے گا۔
انہوں نے کہا: ’بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ یہ صوبہ مولانا فضل الرحمان کے حوالے کیا گیا ہے اور اگر یہ پی ڈیم ایم کی مرکزی قیادت کی جانب سے دیا گیا ہے تو نیچے کی قیادت کچھ بھی کہے اس کا اتنا اثر نہیں آئے گا۔‘
محمود جان بابر سمجھتے ہیں کہ پی ڈی ایم کے لیے بڑا معرکہ عام انتخابات ہیں اور پی ڈی ایم اتحاد خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے خلاف کھڑا کریں گے اور اسی وجہ سے پی ڈی ایم کبھی بھی مولانا کو پریشان نہیں کرے گی۔
اس سارے معاملے پر گورنر خیبر پختونخوا کے ترجمان محمد عامر سے رابطہ کیا گیا لیکن ابھی تک انڈپینڈنٹ اردو کو جواب موصول نہیں ہوا۔