پشاور کی مویشی منڈی میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت جانور

قربانی کے جانوروں کی قیمتیں زیادہ ہونے کے ناوجود پشاور کی مویشی منڈی میں دو بیل مجموعی طور پر تیس لاکھ روپے میں بک چکے ہیں۔

عیدالاضحیٰ میں چند روز رہ جانے پر پشاور میں مویشی منڈیوں کی رونقوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے، تاہم بیوپاریوں کے مطابق آنے والوں کی اکثریت قربانی کے جانوروں کی زیادہ قیمتوں کے باعث نرخ پوچھنے کے بعد واپس جا رہے ہیں۔ 

قربانی کے جانوروں کی قیمتیں زیادہ ہونے کے باوجود پشاور کی بڑی سرکاری مویشی منڈی میں 10 سے 22 لاکھ روپے والے جانور فروخت ہو گئے ہیں، جن میں کرن اور ارجن نامی دو بیل بھی شامل تھے۔ یہ دو جانور مجموعی طور پر 30 لاکھ روپے میں فروخت ہوئے۔

پشاور کے ضلعی انتظامیہ نے گندگی اور بیماریوں سے بچاؤ کے ضمن میں اختیار کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں شہری آبادی سے دور مضافات میں دو بڑی سرکاری مویشی منڈیاں قائم کی ہیں، جن میں بیک وقت ایک ہزار سے زیادہ جانور سمائے ہوئے ہیں۔

پشاور میں پھندو روڈ کے پاس واقع مویشی منڈی میں اس مرتبہ قربانی کے لیے لائے جانے والے جانوروں کی تعداد اچھی خاصی ہے اور یہاں گائے، بیل، بھینسیں، اونٹ، گھوڑے اور بھیڑ بکریاں شامل ہیں، جن کے سر پر سہرا باندھ اور تاج اور جھانجر پہنا کر جاذب نظر بنانے کی کوشش نظر کی گئی ہے۔

غرض جو جانور جس قدر صاف ستھرا، چمکدار، اور جیولری سے لیس ہوتا ہے، وہ اسی قدر خریداروں کی دلچسپی کا باعث بن کر تعریفیں سمیٹتا ہے۔

مویشی منڈی کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی تاحد نگاہ مویشی ہی مویشی دکھائی دیتے ہیں، جن کے مالکان پچھلے 25 دن سے یہاں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں۔

اگرچہ عوام کی اکثریت کے لیے مویشی منڈی جانا کسی تفریح سے کم نہیں، لیکن بیوپاری دن بھر کے انتظار، موسم کی حدت، اور من پسند دام نہ ملنے کی وجہ سے پریشان اور تھکے ہوئے نظر آتے ہیں۔

وحید نامی ایک بیوپاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قربانی کے جانور اس مرتبہ کافی مہنگے فروخت کیے جارہے ہیں، جبکہ دوسری جانب خریدار بھی قیمت پوچھ کر منڈی کی صرف سیر کرکے ہی چلے جاتے ہیں۔

’لیکن ہمارے پاس پوری منڈی میں سب سے مہنگے بیل کرن اور ارجن جن کی قیمتیں 22 لاکھ اور ساڑھے آٹھ لاکھ تھیں، بک چکے ہیں۔‘

امیر محمد نامی پشاور کے ایک شہری نے بتایا، ’پچھلے سال ہم نے جس قد قامت اور جسامت کا بیل تین لاکھ روپے میں خریدا تھا وہ بیوپاری اس سال پانچ لاکھ میں بھی نہیں دے رہے۔ صورت حال خریداروں کے لیے کافی پریشان کن ہے۔‘

مویشی منڈی میں پانچ بیلوں کے مالک محمد عارف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے پاس سب سے وزنی بیل ساڑھے 12 لاکھ روپے کا ہے، جبکہ باقی چار بیلوں کے لیے وہ آٹھ لاکھ تک کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

’اول تو یہ بک جائیں گے اور بصورت دیگر ہمارے پاس جگہ ہے، اگلے سال کے لیے ان کو رکھیں گے۔پھر بھی اگر خدانخواستہ ڈیڑھ دو لاکھ نقصان کا موقع آیا تو اس پر ہم آمادہ ہو جاتے ہیں۔‘

محمد عارف کے مطابق پچھلے سال لمپی سکن بیماری پھیلنے کی وجہ سے انہوں نے قربانی کے ہر جانور میں ساڑھے تین لاکھ تک کا نقصان اٹھایا تھا۔

تاہم ان کے مطابق یہ نقصان فروخت نہ ہونے سے پھر بھی کم ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کل جانوروں کا چارہ بھی کافی مہنگا ہو گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اور دوسرے کئی عوامل ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے مویشی پالنے کا خرچہ اتنا آتا ہے کہ سال کے آخر میں ہمیں جانور بیچ کر کوئی منافع نہیں ملتا۔

ایک سفید رنگ کا بیل منڈی میں ایسا بھی تھا، جس کا مالک عامر مصطفی دعوی کر رہا تھا کہ اس بیل کے جسم پر معبود برتر کا نام ’اللہ‘ قدرتی طور پر لکھا ہوا ہے۔

’اس کی قیمت اس لیے بھی ہم نے ساڑھے گیارہ لاکھ رکھی ہے کہ اس کی گردن پر اللہ کا نام قدرتی طور پر لکھا ہوا ہے۔ شوقین آئے گا اور اس کو خریدے گا، ورنہ ہم خود اس کو اللہ کی راہ میں ذبح کردیں گے۔‘

پشاور مویشی منڈی میں ایک چھوٹے قد کا سیاہ بیل ایسا بھی نظر آیا، جو کہ تھا تو کافی چھوٹے قد کا لیکن مالک اس کی قیمت بھی پانچ لاکھ روپے بتا رہا تھا۔

اسماعیل نامی اس بیوپاری کا کہنا تھا کہ دراصل یہ چھوٹے قد کی ایک نسل ہے، جو کہ گلگت میں پائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ صرف شوق کی خاطر اس بیل کو منڈی لائے تھے، کیونکہ شوقین خریداروں کی کمی نہیں۔

پشاور بار ایسوسی ایشن کی استدعا پر پشاور ہائی کورٹ نے رواں ماہ مویشیوں کی افغانستان غیرقانونی منتقلی روکنے کے لیے محکمہ لائیو سٹاک، انسپکٹر جنرل پولیس، اور صوبائی حکومت کو احکامات بھی جاری کیے تھے، جس کا مقصد ملک میں جانوروں کی کمی دور کرنا اور ان کی قیمتوں میں کمی لانا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان