’شوہر افغان ہے، بچوں کا سکول میں داخلہ نہیں ہوتا‘: پاکستانی خاتون

پشاور کی رہائشی 35 سالہ بسراجہ بی بی نے اپنے افغان شوہر کے لیے پاکستان اوریجن کارڈ کے حصول کی غرض سے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔

پشاور کی رہائشی 35 سالہ بسراجہ بی بی نے اپنے افغان شوہر کے لیے پاکستان اوریجن کارڈ کے حصول کی غرض سے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستانی خاتون بسراجہ بی بی نے بچوں کی تعلیمی مشکلات کی وجہ سے اپنے افغان شوہر کے لیے پاکستان اوریجن کارڈ (پی او سی) کے حصول کی غرض سے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔

پشاور کی رہائشی 35 سالہ بسراجہ بی بی کی شادی 17 سال قبل پڑوس میں رہنے والے 40 سالہ افغان شہری آدم خان سے ہوئی تھی، جن کا خاندان افغانستان سے نقل مکانی کرکے پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا میں مقیم ہے۔ ان دونوں کے چھ بچے ہیں۔

بسراجہ بی بی کا تعلق خیبرپختونخوا کے شنواری قبیلے سے ہے جبکہ ان کے شوہر آدم خان کا تعلق افغانستان کے علاقہ جلال آباد میں آباد شنواری قوم سے ہے۔

خاتون کے مطابق ان کے شوہر کے خاندان کے دیگر افراد واپس افغانستان جاچکے ہیں لیکن آدم خان ان کے اور ان کے بچوں کے ساتھ پشاور میں مقیم ہیں۔

بسراجہ کے مطابق والد کے افغان ہونے کی وجہ سے ان کے بیٹوں کو بہت مشکل سے سرکاری سکول میں داخلہ ملا تھا اور اب جب بچیوں کو سکول میں داخل کروانے کا مرحلہ آیا تو اس وقت بھی والد کا شناختی کارڈ اور برتھ سرٹیفیکیٹ طلب کیا گیا، جو موجود نہ ہونے کی بنا پر ان کی بیٹی کا سکول کا ایک سال ضائع بھی ہوا کیونکہ اسے داخلہ نہیں دیا جا رہا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ بچوں کے فارم ب تیار کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ شوہر کے افغان ہونے کی وجہ سےکوئی کاغذات کی تصدیق کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔

بقول بسراجہ: ’اپنے افغان شوہر آدم خان کے لیے پی او سی (پاکستان اوریجن کارڈ)   بنوانے لیے پشاور میں نادرا کے دفتر گئی لیکن وہ دینے کے لیے تیار نہیں تھے اور مجھے کہا گیا کہ ہمیں افغان شہری کو پی او سی دینے کی اجازت نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’میں نے ایک افغان سے شادی کی ہے لیکن میں نے نہ افغانستان دیکھا ہے اور نہ گئی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے شوہر میرے ساتھ پاکستان میں رہے تو میں خوش ہوں گی۔‘

پی او سی یا پاکستان اوریجن کارڈ کیا ہے؟

نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے آرڈیننس 2002 کے مطابق پاکستان اوریجن کارڈ (پی او سی) ان افراد کو جاری کیا جاتا ہے:

۔ پاکستانی شہری، جنہوں نے اپنی قومیت کو ترک کردیا ہو۔

۔ غیر ملکی شہری، جنوں نے کسی پاکستانی شہری سے شادی کی ہو اور ان کے والدین پاکستانی نژاد ہوں یا کبھی پاکستانی شہریت رکھتے ہیں۔

۔ غیر ملکی شہری، جن کے والدین یا دادا دادی پاکستانی ہیں یا تھے۔

۔ غیر ملکی شہری، جن کا کوئی رشتہ دار (بھائی، بہن، چچا، خالہ) پاکستانی شہری ہیں یا تھے۔

۔ غیر ملکی شہری (جن کے والدین پاکستانی نہیں تھے) اور جنہوں نے کسی پاکستانی شہری سے شادی کی ہے۔

پاکستان اوریجن کارڈ کے حامل غیر ملکی افراد کے لیے پاکستان کا ویزہ انٹری فری ہوگا، وہ بینک اکاؤنٹ کھول سکیں گے، منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی خریداری کرسکیں گے یعنی جو سہولیات قومی شناختی کارڈ پر حاصل ہیں، وہ پی او سی کارڈ ہولڈر کو بھی حاصل ہوں گی۔

پی او سی کارڈ کی مدت اس وقت تک ہوگی جب تک اس شخص کا پاکستانی خاتون کے ساتھ رشتہ ہوگا۔ طلاق، خلع یا موت واقع ہونے پر غیر ملکی شخص کی پی او سی کارڈ کی مدت ختم ہوجائے گی۔

پی او سی کارڈ ان غیر ملکی افراد کو جاری نہیں کیا جاسکتا، جو پاکستان دشمن ملک سے تعلق رکھتے ہوں یا جنہیں پاکستان نے تسلیم نہ کیا ہو۔

پشاور ہائی کورٹ نے 2021 کے ایک فیصلے میں ریماکس دیے تھے کہ وہ پاکستانی خواتین، جن کے شوہر افغان پناہ گزین ہیں، انہیں پی او سی کارڈ جاری کیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

18 جون 2023 کو بھی پشاور ہائی کورٹ نے چار پاکستانی خواتین، جن کے شوہر افغان شہری تھے، کو 90 دن میں پی او سی کارڈ جاری کرنے کا حکم جاری کیا۔

پشاور ہائی کورٹ کے وکیل منصف سعید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وزرات داخلہ نے سال 2012 میں ایک آرڈیننس کے ذریعے پی او سی رولز میں تبدیلی کی اور افٖغان شہریوں کو کیٹیگری بی میں شامل کرکے پی او سی کارڈ کے لیے سکیورٹی کلیئرنس کی شرط لگا دی تھی جبکہ پی اوسی رولز 2002 میں اس قسم کی کوئی بات نہیں ہے۔

بسراجہ کے وکیل منصف سعید کے مطابق ان کے پاس پی او سی کے چھ سے زائد کیس موجود ہیں، جن میں دیگر ممالک کی نسبت افغان مردوں کو پی او سی ملنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بقول منصف سعید عدالت سے آرڈر ملنے کے بعد افغان شہری کو 250 ڈالر (تقریباً 75 ہزار پاکستانی روپے) فیس بھی جمع کروانی پڑتی ہے، جس کے بعد سکیورٹی کلیئرنس ملتی ہے، جو دیہاڑی دار اور مزدور افراد کے لیے ایک مشکل کام ہے۔

نادرا سے پی او سی کارڈ کے حوالے سے موقف حاصل کرنے کے لیے ان کے ویب سائٹ پر دستیاب پبلک ریلیشن آفیسر کے ای میل ایڈریس پر سوال نامہ بھیجا گیا لیکن کئی دن گزر جانے کے باوجود کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

افغانستان پر سویت یونین کے حملے کے بعد لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان میں آباد ہوئے تھے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین یو این ایچ سی آر کے مطابق اس وقت پاکستان میں 1.4 ملین رجسٹرڈ افغان پناہ گزین آباد ہیں اور 1.5 ملین غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزین آباد ہیں۔

اسی طرح اگست 2020 میں افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد تقریباً ڈھائی لاکھ افغان مہاجرین پاکستان منتقل ہوئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان