راما میڈوز: جہاں پولو فیسٹیول کی رونقیں گھاس کو کچل ڈالتی ہیں

ضلع استور گلگت بلتستان کا ایسا مقام ہے جس کی حدود قدرتی انعامات سے مالا مال ہیں۔ نانگا پربت کا روپل چہرہ اور ترشنگ جیسا خوبصورت گاؤں اسی ضلعے کی باؤنڈری میں واقع ہے۔

راما میڈوز کا ایک منظر (تصویر: فیصل اقبال/ وکی میڈیا کامنز)

استور شہر قراقرم ہائی وے  سے یوں تو صرف 44 کلومیٹر دور ہے مگر استور دریا کا شور جارحانہ ڈرائیونگ سے روکے رکھتا ہے، اس لیے یہ مسافت دو گھنٹے میں طے پاتی ہے۔

زیرو پوائنٹ چوک سے ایک راستہ براہ راست شہر میں داخل ہوتا ہے اور دوسرا راستہ بائی پاس کی شکل میں گوری کوٹ روڈ سے ہوتا ہوا بازار کو چھوتا ہے۔ شہر کی اترائیاں اور چڑھائیاں سطح سمندر سے 7500 فٹ اور کہیں پر 7700 فٹ بلند ہیں۔ دھوپ ہو تو گرمی اور اگر بادل ہوں تو معتدل موسم اس شہر کی پہچان ہے۔

ضلع استور گلگت بلتستان کا ایسا مقام ہے، جس کی حدود قدرتی انعامات سے مالا مال ہیں۔ نانگا پربت کا روپل چہرہ اور ترشنگ جیسا خوبصورت گاؤں اسی ضلع کی باؤنڈری میں واقع ہے۔

دیوسائی کا میدان اور جھیل شیوسر بھی 2004 میں ڈسٹرکٹ کا درجہ پانے والے استور کی ملکیت ہے۔ برزل ٹاپ کی بلندی بھی استور کی ضلعی حدود میں واقع ہے۔ چلم چوکی، منی مرگ اور ڈومیل کی وادیاں بھی استور کی ریونیو حد میں آتی ہیں۔ دیامر، سکردو اور کشمیر کی حدیں استور سے ملتی ہیں۔ 1969 تک کشمیر اور گلگت کی واحد گزر گاہ برزل پاس اور استور سے گزرتی تھی۔

استور سے چھ کلومیٹر بلندی کی طرف جاتی سڑک زینہ وار کھیتوں اور چند بستیوں سے گزر کر راما پہنچتی ہے تو یوں لگتا ہے کہ کسی چھوٹے فیری میڈوز میں آ گئے ہیں، اور غلط بھی نہیں لگتا کہ سامنے نظر آتے نانگا پربت کے دامن میں ہی تو فیری میڈوز ہے اور راما کی پہاڑی دیوار کو عبور کر سکیں تو دوسری جانب پریوں کی چراگاہیں ہیں۔ راما کی بلندی 10335 فٹ ہے اور فلک بوس درخت راما کے درجہ حرارت کو پندرہ ڈگری سے اوپر نہیں چڑھنے دیتے۔

راما کی پہچان پولو فیسٹیول ہے، جب میڈوز کی زعفرانی گھاس کو گھوڑوں کے نوکیلے ناخن کچل دیتے ہیں اور ہر طرف پھیلی خالی بوتلیں اور کوڑا کرکٹ انسانی تہذیب کی گواہی دیتے ہیں۔

پیالہ نما وادی کو اطراف سے پہاڑوں اور درختوں نے گھیر رکھا ہے اور گھاس کے میدان کے عین درمیان سے ایک چھوٹی سی ندی گزرتی ہے۔ یہ ندی راما لیک کے قریبی چشمے سے آتی ہے اور میڈوز کی گھاس کو چھوتی ہوئی استور دریا کو سجدہ کر دیتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اخروٹ کے پیڑ راستے میں اور دیودار اور چیڑھ کے درخت  راما کی بلندی پر ایستادہ ہیں۔ ان درختوں کے بیچ چند قدیم سرکاری ریسٹ ہاؤس وادی کو خیالی دنیا سے نکال کر حقیقی دنیا میں لے آتے ہیں کہ چلتے پھرتے انسان تصوراتی کیونکر ہو سکتے ہیں۔ سیاحوں کے لیے خیمے اور عارضی قیام گاہیں بھی نصب ہیں۔ انہی خیمہ بستیوں میں سے نکلتا راستہ بار بار گھنے پیڑوں میں گم ہو جاتا ہے اور پھر کہیں دور کسی ندی کنارے طلوع ہوتا ہے۔

راما میں جب ہوا چلتی ہے تو نمی میں ڈوبی جنگلی پھولوں کی بے نام خوشبو ہر سانس لیتے انسان کے بدن پر گدگدی کرتی ہے۔

پاکستان کے شمال میں کسی شہری آبادی کے قریب ترین صرف راما ہی ہے جو اپنی وسعت کے باوجود خاموش پناہ گاہ ہے، جس کی سرکاری رہائش گاہوں میں تعینات باورچی بھی اپنی پراسراریت کے سبب آسیب نما معلوم ہوتے ہیں۔

 ہمالیائی برچ کے درخت ایسا منظر پیش کرتے ہیں کہ بے ساختہ زبان پر آ جاتا ہے کہ ’تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔‘

 راما میدان کے پہلو سے گزرتا راستہ راما جھیل کی طرف جاتا ہے۔ ایک گھنٹہ پیدل چل کر راما کی 11424 فٹ بلندی تک پہنچیں تو برف پوش پہاڑوں کے دامن تلے آباد جھیل قدرت کی تخلیق کی آئینہ دار ہے۔ گزرگاہ سے 30 فٹ اترائی میں راما جھیل کے پانی کو آرام سے چھوا جا سکتا ہے۔ جھیل کے راستے میں کئی گلیشیئرز ہیں جو پگھل کر چھوٹی چھوٹی جھیلوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ ان چھوٹی جھیلوں میں برف کے ٹکڑے تیرتے ہیں تو کوئی آبی مخلوق لگتے ہیں۔

بادلوں اور پہاڑوں کے رنگ لیے راما جھیل حسن فطرت کا عظیم شاہکار ہے اور ایسے شاہکار کے لیے قراقرم ہائی وے سے اتر کر استور آنا اور پھر مسلسل چڑھائیاں چڑھنا کوئی غیر مناسب بھی نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ