کوئٹہ میں واقع ’منی افغانستان‘

اس علاقے میں اکثر افغان پناہ گزین آباد ہیں اور کاروبار کرتے ہیں، لہذا یہاں تمام سامان بھی وہی دستیاب ہے جو افغانستان کے باشندے پسند کرتے اور خریدتے ہیں۔

کوئٹہ  شہر سے پانچ کلومیٹر سے زائد فاصلے پر واقع علاقے غوث آباد میں ایک ایسا بازار بھی واقع ہے، جہاں جا کر محسوس ہو گا کہ آپ شاید افغانستان میں گھوم رہے ہیں۔

یہاں کے لوگ، کھانے، دکاندار سب کا تعلق افغانستان سے ہے اور افغانستان ہی کی طرز پر یہاں فارسی، ازبکی اور پشتو بولی جاتی ہے۔ علاقہ مکین اسے ’منی افغانستان‘ کہتے ہیں۔

اس بازارمیں کپڑوں کا کاروبار کرنے والے محمود کا تعلق قندھار کے علاقے دامان سے ہے، جو گذشتہ 40 سال سے یہاں مقیم ہیں۔

محمود کے مطابق: ’میرے والد نے 40 سال پہلے یہ کام شروع کیا تھا، اب میں اس کو چلاتا ہوں تاکہ مزید ترقی دے سکوں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس علاقے میں اکثر افغان پناہ گزین آباد ہیں اور کاروبار کرتے ہیں۔ یہاں پر رابطے کی غالب زبان فارسی ہے۔ یہاں تمام سامان بھی وہی دستیاب ہے جو افغانستان کے باشندے پسند کرتے اور خریدتے ہیں۔

’یہاں پر افغان ملبوسات، کھانے اور دیگر سامان ملتا ہے۔ خوراک کو دیکھیں تو افغانی کباب اور پلاؤ زیادہ فروخت ہوتا ہے، جو افغان باشندوں کی پسندیدہ خوراک ہے۔‘

محمود کے مطابق یہاں: ’ایسے دکاندار بھی ہیں جنہیں اردو سمجھ نہیں آتی اور وہ بول بھی نہیں سکتے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ یہاں آنے سے پہلے وہ اردو بھی بول سکتے تھے لیکن یہاں آنے کے بعد اب وہ اردو زبان بھی بھول گئے ہیں کیوں کہ یہاں پر پشتو، فارسی اور ازبکی زبان کے علاوہ دیگر زبانوں میں بات نہیں ہوتی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول محمود: ’یہاں پر افغان صوبوں ہلمند، غزنی اور دوسرے علاقوں سے لوگ آتے ہیں اور خریداری کرتے ہیں، کیوں کہ ان کی مطلوبہ تمام چیزیں یہاں پر ملتی ہیں۔ چونکہ خریدار اور فروخت کنندگان، دونوں کا تعلق افغانستان سے ہوتا ہے، اس لیے کسی کو محسوس نہیں ہوتا کہ وہ کوئٹہ کے علاقے میں گھوم رہا ہے۔‘

غوث آباد میں مقیم ایک افغان پناہ گزین ڈاکٹر خیر محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے والد 1979 میں یہاں آئے تھے، انہوں نے شادی بھی یہیں کی اور اس وقت یہاں مقیم صرف ان کے خاندان کے افراد کی تعداد ہی 55 سے زائد ہے۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے سنہ 2000 میں یہاں کرائے پر دکان لے کر کام شروع کیا۔ ’اُس وقت یہاں آٹھ سے دس دکانیں تھیں، جن میں آبادی بڑھنے کے ساتھ اضافہ ہوا۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق یہاں 15 سو سے زائد دکانیں ہیں، جن میں نئی مارکیٹوں کی تعمیر کے ساتھ اضافہ ہوسکتا ہے۔‘

ڈاکٹر خیر محمد نے مزید بتایا کہ ’جب یہاں افغان پناہ گزینوں کی تعداد بڑھ گئی اور انہوں نے کاروبارشروع کیا تو یہ اب افغانستان جیسا لگتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس علاقے میں تقریباً 30 ہزار کے قریب پناہ گزین رہائش پذیر ہیں، لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ 60 سے70 فیصد آبادی انہی کی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان