صوبہ خیبر پختونخوا کے صدر مقام پشاور میں واقع گورنر ہاؤس میں منگل کی صبح وزیراعظم شہباز شریف نے ’فاٹا یونیورسٹی‘ کا افتتاح کیا اور اسی تقریب میں جامعات کے طلبہ میں ’لیپ ٹاپ‘ بھی تقسیم کیے۔
ضلع کوہاٹ کے مضافات درہ آدم خیل میں آباد ’فاٹا یونیورسٹی‘ جس کی افتتاحی تقریب مسلم لیگ ن کے اندرونی گٹھ جوڑ کے بعد گورنر ہاؤس میں منعقد کی گئی۔
فاٹا یونیورسٹی 23 اگست کو اس کی عمارت میں منتقل کر دی جائے گی، اور وہیں ستمبر سے نئی کلاسوں کا آغاز ہو گا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی رہنما اور ترجمان اختیار ولی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’تقریب میں فاٹا یونیورسٹی کا نام بدلنے پر بھی بات ہوئی اور ہجوم سے متعدد آوازیں اٹھیں، جنہوں نے یونیورسٹی کا نام شہباز شریف، آزاد قبائل اور دیگر نام تجویز کیے۔
’تاہم شہباز شریف نے عزت افزائی کے لیے شکریہ تو ادا کیا لیکن یونیورسٹی کا نام رکھنا قبائل کی صوابدید قرار دیا۔‘
دوسری جانب اس موضوع پر انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے بعض اساتذہ نے خدشہ ظاہر کیا کہ جامعہ کا نام بدلنے کے لیے وقت گزر چکا ہے اور ایسی کسی کوشش کی صورت میں اس کی ڈگری وقعت کھو سکتی ہے۔
فاٹا یونیورسٹی کے ایک استاد نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ’فارغ التحصیل طلبہ و طالبات جن اداروں میں ملازمت کے لیے جائیں گے ان اداروں کو سرچ کرنے پر یہ نام نہیں ملے گا۔ لہذا وہ اس ڈگری کو جعلی کے زمرے میں ڈال سکتےہیں۔‘
فاٹا یونیورسٹی کی جداگانہ حیثیت
مئی 2013 میں نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے فاٹا یونیورسٹی کی منظوری دی تھی اور یہ وہ وقت تھا جب آصف علی زرداری صدر پاکستان تھے۔
پاکستان کی تاریخ میں صرف قبائلی نوجوانوں کے لیے منظور ہونے والی یہ پہلی یونیورسٹی ہے، جس کے دستاویزات کے مطابق اس کی ذیلی شاخیں خار، میران شاہ اور پاڑہ چنار میں بھی قائم کرنے کے منصوبے موجود ہیں۔
اکتوبر 2016 میں گورنمنٹ ڈگری کالج فار بوائز درہ آدم خیل کے ایک حصے کو خالی کرکے منیجمنٹ سائنسز، ریاضی اور سوشل سائنسز کی کلاسیں شروع کی گئیں ہیں، جبکہ فنڈنگ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے ہوتی رہی۔
اسی کالج کے عقب میں 58.25 ایکڑ کی زمین پر یونیورسٹی کی تعمیر بھی شروع ہوئی، جہاں حال ہی میں دو بلاک مکمل ہوئے، جن کا افتتاح کیا گیا۔
فاٹا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عدیل رحیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگلے ماہ پہلی مرتبہ ’فاٹا یونیورسٹی‘ کی اپنی عمارت میں منتقلی ہو گی اور اس مادر علمی کو کاغذوں سے باہر بھی ایک مقام حاصل ہو سکے گا۔
اسی یونیورسٹی کے انتظامی معاملات سنبھالنے والے ڈاکٹر حضرت بلال نے بتایا کہ اگرچہ یہ یونیورسٹی صرف قبائلی نوجوانوں کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی، لیکن اس میں دوسرے اضلاع کے طالب علم بھی پڑھنے آرہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت تقریب ڈیڑھ سو طالبات جبکہ ایک ہزار کے قریب طلبہ زیر تعلیم ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یونیورسٹی میں مسائل
فاٹا یونیورسٹی کے طالب علم سفیر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’فاٹا یونیورسٹی سے قبائلی عوام کو ایک بڑی نعمت حاصل ہوئی تاہم انہیں اب تک کئی مشکلات کا سامنا رہا ہے، جن میں کلاس رومز کی کمی اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی وغیرہ شامل ہیں۔‘
پروفیسر ڈاکٹر عدیل نے کہا کہ اگست کے آخر میں داخلے اور ستمبر کے آغاز سے نئی کلاسز شروع ہو جائیں گی، تاہم نئی عمارت میں جگہ کافی ہونے کے باوجود ٹیچنگ اور انتظامی عملے کی کمی ہے۔
’پہلے جگہ نہیں تھی، اب جگہ بہت ہو گی لیکن سٹاف کی کمی ہے۔ ہماری یونیورسٹی کی فنڈنگ بھی صرف ایچ ای سی سے ہوتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ دیگر تعلیمی اداروں کی طرح صوبائی حکومت بھی ہمیں اپنی فنڈنگ میں شامل کے۔‘
یونیورسٹی کے بعض اساتذہ کا کہنا تھا کہ 2019 سے قبل فاٹا یونیورسٹی کی سکیورٹی فوج کے پاس تھی جس کی وجہ سے وہ خود کو محفوظ سمجھتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ 2019 کے بعد سکیورٹی ملیشیا اور پولیس کے حوالہ کرنے کے بعد عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوا ہے، اس لیے نئی عمارت کے محل وقوع کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے حکومت سے مزید سکیورٹی فراہم کرنے کی درخواست کی۔