انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم ہونے کے چار سال مکمل ہونے پر آج (ہفتہ) پاکستان بھر میں ’یوم استحصال‘ کے عنوان سے مظاہروں کا انعقاد کیا گیا ہے۔
پانچ اگست 2019 کو انڈیا کی مرکزی حکومت نے آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی جس کے بعد کشمیریوں کے احتجاج کو روکنے کے لیے جموں و کشمیر میں کئی ماہ تک لاک ڈاؤن نافذ کرتے ہوئے انٹرنیٹ کو بند کر دیا گیا تھا۔
پانچ اگست کے قریب آتے ہی انڈین حکومت نے کشمیر میں کئی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔
انڈیا کے زیرانتظام جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’مجھے اور پی ڈی پی کی سینیئر قیادت کو اپنے گھروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔ یہ آدھی رات کو کیے جانے والے اس کریک ڈاؤن کے بعد ہوا ہے جس میں میری جماعت کے کارکنوں کو غیر قانونی طور پر پولیس سٹیشنز میں گرفتار رکھا جا رہا ہے۔ انڈین حکومت کے حالات معمول پر آنے کے جھوٹ کا پردہ فاش ہو گیا ہے۔‘
I’ve been put under house arrest along with other senior PDP leaders today. This comes after a midnight crackdown where scores of my party men are illegally detained in police stations. GOIs false claims about normalcy to the SC stands exposed by theirs actions driven by… pic.twitter.com/gqp25Ku2CJ
— Mehbooba Mufti (@MehboobaMufti) August 5, 2023
دوسری جانب انڈیا کے اس اقدام کے چار سال مکمل ہونے پر پاکستان کے مختلف شہروں میں آج یعنی پانچ اگست کو احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے دارالحکومت اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر مشیر برائے امور کشمیر قمر زمان قائرہ کی قیادت میں ایک ریلی نکالی گئی۔
یہ احتجاجی ریلی ریڈیو پاکستان چوک سے شروع ہو کر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے سے ہوتی ہوئی ڈی چوک پہنچے گی جہاں ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی گئی۔
شرکا سے خطاب کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ’اقوام متحدہ اور اقوام عالم کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیریوں کو ان کا حق دلوائیں۔ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا وعدہ اقوام متحدہ میں انڈیا کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کیا تھا۔‘
ان کے مطابق ’یہ وعدہ پاکستان کا نہیں انڈیا کا تھا اور اب اقوام عالم کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیریوں کو ان کا حق دلوائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عالمی برادری یوکرین سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کی بات کرتی ہے۔ انہیں کشمیر میں ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف بھی آواز اٹھانی چاہیے۔‘
اس سے قبل ’یوم استحصال‘ کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’پاکستان کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کے جائز اور منصفانہ مقصد کے لیے اپنی غیر متزلزل اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔‘
شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’یہ پاکستان کا اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں سے پختہ عزم اور وعدہ ہے کہ ہم ہر فورم پر ان کی آواز بلند کریں گے جب تک کہ دنیا کارروائی نہیں کرتی اور انڈیا پر زور نہیں دیتی کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور جبری قبضے کو ختم کرے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’پانچ اگست 2019 کے بعد سے اٹھائے گئے تمام یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو ختم کریں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق منصفانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔‘
وزیراعظم کے بیان کے مطابق ’انڈیا کی جانب سے پانچ اگست 2019 کو یکطرفہ اور غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کو چار سال ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد سے انڈیا کشمیری عوام کو دبانے کے لیے طاقت اور تشدد کا وحشیانہ استعمال کر رہا ہے۔ اس نے واضح طور پر متعدد اقدامات بھی اٹھائے ہیں جن کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع حیثیت کو تبدیل کرنا ہے۔ خاص طور پر انڈیا نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو کمزور کرنے کے لیے آبادیاتی تبدیلیاں لانے کی کوشش کی ہے۔‘
اس حوالے سے صدر پاکستان اور دیگر شخصیات کی جانب سے بھی پیغامات جاری کیے گئے ہیں۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ ’کشمیری انڈیا کے غیر قانونی اور غاصبانہ تسلط کے خلاف لازوال قربانیاں دے رہے ہیں۔ پاکستان اپنے بھائیوں اور بہنوں کی آواز بنتا رہے گا اور ان کے جائز حقوق کے حصول کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کرے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق تنازع جموں و کشمیر کے پرامن حل کے ذریعے ہی جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و استحکام ممکن ہے۔‘
آرٹیکل 370 کیا ہے؟
انڈین آئین کی اس شق کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت کا درجہ حاصل تھا، جس کے تحت ریاست دفاع، امورِ خارجہ، مالیات اور مواصلات کے علاوہ باقی تمام امور میں خود مختار تھی اور انڈین آئین کے دیگر حصوں کا نفاذ ریاستی اسمبلی کے اتفاق ہی سے ممکن تھا۔
اسی طرح اس قانون کے تحت ریاست کے شہریوں کو انڈیا کے دیگر شہریوں سے مختلف حقوق حاصل تھے، جس کی وجہ سے اس آرٹیکل کے تحت ریاست کے شہریوں کے علاوہ کوئی اور شخص یہاں غیر منقولہ جائیداد نہیں خرید سکتا تھا، یہاں نوکری نہیں کر سکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور پر سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے حوالے سے کشمیریوں کو خدشہ تھا کہ اگر یہ دفعہ ختم ہوگئی تو کروڑوں کی تعداد میں غیر مسلم آباد کار یہاں آ کر ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہو جائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہی وجہ تھی کہ کسی بھی قسم کے احتجاجی مظاہروں سے نمٹنے کے لیے انڈیا نے پہلے ہی وہاں موجود فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا اور خطے میں کافی عرصے تک کرفیو لگا کر انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کردی تھی۔
آرٹیکل 370 کے تحت انڈین صدر صرف جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی ایڈوائس پر ہی آرٹیکل 370 کو ختم کر سکتے ہیں۔
تاہم انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آئین ساز اسمبلی 1957 میں توڑ دی گئی تھی جس کی جگہ قانون ساز اسمبلی نے لے لی۔ 2018 میں انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور کشمیر کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے درمیان اتحاد ختم ہونے کے بعد قانون ساز اسمبلی برطرف کر دی گئی تھی۔
اہم بات یہ ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے متعلق انڈین صدر کے حکم میں قانون ساز اسمبلی کے لفظ کو گورنر جموں و کشمیر سے بدل دیا گیا۔ اس طرح گورنر کی رضامندی کو ریاست کی رضامندی کے طور پر استعمال کیا گیا۔
یہ نکتہ بھی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان نے کشمیر کے انڈیا کے ساتھ الحاق اور آرٹیکل 370 کو جموں و کشمیر پر انڈین دعوے کی بنیاد کے طور پر کبھی تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے پہلے پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیا تھا اور کشمیر پر انڈیا کا جبری قبضہ ریاست کی مسلم اکثریتی آبادی کی خواہشات کے خلاف ہے۔
اس فیصلے کے فوری بعد پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں انڈین اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ’انڈیا کا زیر انتظام کشمیر ایک عالمی تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے اور چونکہ پاکستان اس عالمی مسئلے کا حصہ ہے لہذا وہ اس غیر قانونی اقدام کو روکنے کے لیے ہر ممکنہ آپشن استعمال کرے گا۔‘
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد پاکستان نے انڈیا کے ساتھ سفارتی تعلقات کم کرتے ہوئے تجارت معطل کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔