سندھ اسمبلی کا آئینی مدت پوری ہونے پر تحلیل ہونے سے کچھ عرصہ قبل صوبائی حکومت نے بڑے پیمانے پر قانون سازی کرتے ہوئے کئی بل پاس کرانے کے علاوہ مختلف اداروں کو بڑے پیمانے پر فنڈز کے اجرا کی منظوری بھی دی ہے۔
آخری ایام میں قانون سازی اور فنڈز کے اجرا پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ کے ترجمان نے بلز کی منظوری اور فنڈز کے اجرا کو معمول قرار دیا ہے۔
سندھ اسمبلی کا آخری اجلاس دو ہفتوں سے زائد روز تک جاری رہنے کے بعد جمعے کو ختم ہو گا۔
سندھ اسمبلی کے سیکریٹری کے مطابق اس اجلاس میں 32 بلز منظور کیے گئے۔
گذشتہ کئی سالوں سے سندھ اسمبلی کی کارروائی مسلسل رپورٹ کرنے والے ایکپریس گروپ سے منسلک کراچی کے سینیئر صحافی رزاق ابڑو کا کہنا تھا کہ گذشتہ پانچ سالوں کے دوران صوبائی مقننہ کے کسی ایک اجلاس کے دوران اتنی بڑی تعداد میں قانون سازی نہیں کی گئی۔
رزاق ابڑو کے مطابق : ’دو ہفتوں کے اجلاس کے دوران 32 بلز کی منظوری شاید سندھ اسمبلی کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوئی ہو۔ اتنے بڑے پیمانے پر قانون سازی ایک نیا ریکارڈ ہے۔‘
سندھ حکومت نے اپنے آخری ایام میں فنڈز کے اجرا پر تبصرہ کرتے ہوئے رزاق ابڑو نے کہا کہ عام طور پر صوبائی حکومت جون میں سالانہ بجٹ منظور کرانے کے بعد تمام محکموں کو سہ ماہی بجٹ منظوری کے تین مہینوں بعد یعنی ستمبر کے آخری میں جاری کرتی ہے۔
’مگر اس سال جون میں سالانہ بجٹ کی منظوری کے بعد صوبائی محکموں کو سہ ماہی بجٹ جولائی میں ہی جاری کر دیا گیا تھا۔‘
سندھ حکومت نے کون سے فنڈز منظور کیے؟
آئینی طور پر اسمبلی کے تحلیل ہونے سے دو روز قبل نو اگست کو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی صدارت میں ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں سندھ حکومت کے مختلف منصوبوں اور صوبائی محکموں کو معاوضوں اور دیگر مدوں میں بڑے پیمانے پر فنڈز کی منظوری دی گئی۔
صوبائی کابینہ کے اجلاس میں فنڈز کی منظوری کے حوالے سے ہونے والے فیصلوں کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں۔
پولیس کے ڈیوٹی کے دوران جاں سے جانے اور زخمی ہونے والے سپاہیوں اور افسران کے لیے معاوضے اور ٹرانسپورٹ فنڈز کی منظوری دی، جس سے خزانے پر سالانہ 754 ملین روپے کا اضافی بوجھ پڑا ہے۔
سکھر اور لاڑکانہ ڈویژنز کے اضلاع بشمول گھوٹکی، سکھر، شکارپور اور کشمور دریائے سندھ کے کچے میں موجود جرائم پیشہ افراد اور مجرموں کو پکڑنے کے لیے 20 پولیس کیمپ اور 350 پولیس چوکیاں قائم کرنے والے منصوبے۔
دریائے سندھ کے کچے میں تعینات 4500 پولیس اہلکاروں کو ماہانہ تنخواہ کے علاوہ دس ہزار روپے ماہوار الاؤنس دینے کی منظوری، جس سے مجموعی طور پر سرکاری خزانے پر 540 ملین روپے سالانہ بوجھ پڑے گا۔
گھوٹکی میں آئی بی اے سکھر کے کیمپس کے قیام کے لیے ون ٹائم سیڈ منی کے طور پر 150 ملین روپے سالانہ گرانٹ کے طور 250 ملین روپے دینے کی منظوری،
سندھ کابینہ نے ایم 9 اور این 5 لنک روڈ پر نئے انٹر چینج کی تعمیر کے لیے 2.4 ارب روپے سے زائد کے اضافی کام کی تعمیر کی منظوری۔
سجاول تا ٹنڈو محمد خان روڈ کی تعمیر کے لیے 25 ارب روپے کے منصوبے کی منظوری
چھ اگست کو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبے کے 40 ٹول پلازہ پر دیگر شہروں سے جڑنے والے تمام بڑے داخلی اور خارجی راستوں کے لیے ایک جامع اور مربوط میونسپل سکیورٹی سلوشن قائم کرنے کے لیے 1.481 بلین روپے کے سندھ اسمارٹ سرویلنس سسٹم منصوبے کا بھی آغاز کیا۔
اس کے علاوہ حکومت کے آخری ایام میں سندھ حکومت نے 140 سے زائد صوبائی محکموں میں نئی بھرتیوں کے لیے اخبارات میں اشتہارات جاری کیے۔ نئی بھرتیوں کو متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے سندھ ہائی کورٹ میں چلینج کر دیا ہے۔
رزاق ابڑو کے مطابق اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے بعد نگران سیٹ اپ کے طویل ہونے کے خدشے کے بعد سندھ حکومت نے جلدی میں بڑے پیمانے پر قانون سازی کی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے رزاق ابڑو نے کہا : 'قانونی طور پر اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے بعد اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں 90 دن میں الیکشن کرانا لازم ہیں۔ مگر مدت سے ایک دن قبل اگر اسمبلی تحلیل ہو تو ایسی صورت میں 90 دن کے بجائے 120 دن میں الیکشن کرانے لازم ہیں۔
’سندھ اسمبلی کی مدت 12 اگست کو مکمل ہو گی، مگر اسمبلی 11 اگست کو تحلیل ہو رہی ہے۔ اس لیے اب الیکشن تین مہینوں کے بجائے چار مہینوں میں ہوں گے۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت نے حال ہی میں مردم شماری کو مشترکہ مفادات کونسل سے منظور کروا لیا ہے۔ اب قانونی طور پر لازم ہو گیا ہے کہ نئی مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیاں کی جائیں اور اس کے بغیر آئینی طور پر الیکشن کروانا ممکن نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس لیے خدشہ ہے کہ الیکشن منعقد ہونے اور نئی صوبائی حکومت بننے میں وقت لگ جائے گا۔ اس لیے سندھ حکومت نے تمام بقایا بل اور دیگر قانون اسمبلی سے مدت ختم ہونے سے کچھ عرصہ قبل پاس کروا لیے ہیں اور مختلف اداروں کو فنڈز کا اجرا بھی اسی لیے کیا گیا ہے۔‘
حکومت کا موقف
وزیراعلی سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے کہا سندھ اسمبلی میں پاس کرائے گئے تمام قوانین آئین کے مطابق ہے اور ایک بھی بل متنازعہ نہیں ہے، جب کہ بجٹ سرکاری اداروں کو ہی جاری کیا گیا ہے اور یہ تمام سرگرمیاں معمول کے مطابق ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفگتو کرتے ہوئے عبدالرشید چنا نے کہا : ’ایسا نہیں ہے کہ سندھ اسمبلی نے مدت ختم ہونے سے چند دن قبل بڑے پیمانے پر قانون سازی کی ہے۔ سندھ اسمبلی کا سالوں سے یہ ریکارڈ رہا ہے کہ چاروں صوبوں کی کی نسبت سندھ اسمبلی ہمیشہ قانون سازی میں سب سے آگے رہی ہے۔
’اس کے علاوہ فنڈز کا اجرا بھی صرف سرکاری اداروں کو ہی کیا گیا ہے جو ایک معمول کی بات ہے۔ صرف ایک غیر سرکاری ادارے اُجالا کو 400 ملین جاری کیے گئے ہیں۔‘
ترجمان کے مطابق : ’انتخابات کے بعد نئی حکومت کے قیام میں کچھ عرصہ لگ جاتا ہے، اس لیے سندھ حکومت نے صوبائی حکومت کا بزنس زیرو کرنا چاہتی تھی، تاکہ جب الیکشن کے بعد نئی حکومت بنے تو نئے سرے سے کام شروع ہو۔‘