خوست: ہوٹل میں دھماکا، متاثرین میں پاکستانی شامل

افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق دھماکے میں چھ افراد جان سے گئے جبکہ پانچ دوسرے زخمی ہوئے۔

افغان شہر خوست میں اتوار کو ہونے والے دھکامے کا مقام (خالد زدران ترجمان کابل پولیس کمانڈ) 

افغانستان کے مشرقی صوبہ خوست کے ایک مقامی ہوٹل میں دھماکے کے نتیجے میں چھ افراد جان سے گئے ہیں، جبکہ پانچ دوسروں کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

افغان وزارت داخلہ میں کابل پولیس کمانڈ کے ترجمان خالد زدران نے میڈیا کو جاری بیان میں بتایا ہے کہ دھماکے میں جانیں کھونے اور زخمی ہونے والے افراد میں سرحد پار سے پاکستانی قبائلی ضلع وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین بھی شامل ہیں۔

خالد زدران کے مطابق مقامی سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر تفیش شروع کر دی ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دھماکے میں چھ جانیں ضائع ہوئیں اور پانچ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ دھماکے کے متاثرین میں عام مقامی اور غریب لوگ ہیں۔

خوست افغانستان کا مشرقی صوبہ ہے جس کی سرحدیں پاکستان کی قبائلی ضلع شمالی وزیرستان اور ضلع کرم سے ملتی ہیں۔

خوست ہوٹل دھماکے کے حوالے سے ابھی تک یہ تفصیل سامنے نہیں آئی ہے کہ جس ہوٹل میں دھماکہ ہوا ہے، وہ رہائشی ہوٹل ہے یا ریسٹورنٹ۔ 

یاد رہے کہ افغانستان سمیت پشتون خطے میں ریستوران کو عموماً ہوٹل ہی کہا جاتا ہے اور دونوں میں تفریق نہیں کی جاتی۔ 

خالد زدران کے مطابق یہ ہوٹل مقامی مسجد کے قریب واقع تھا اور دھماکے کی جگہ سے زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے 2017 کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کے صوبہ خوست میں پانچ ہزار سے زیادہ پاکستانی پناہ گزین خاندانوں کے 41 ہزار سے زیادہ ارکان آباد ہیں۔ 

نارویجین ریفیوجی کونسل (این آر سی) کے مطابق 2020 تک پاکستانی پناہ گزینوں کی تعداد 72000 تک پہنچ گئی تھی، جس میں زیادہ پاکستان افغانستان بارڈر کے قریب گلان مہاجرین کیمپ میں مقیم ہیں۔

این آر سی کے مطابق جنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کے بعد یہ مہاجرین افغانستان کے صوبہ خوست اور پکتیا میں آباد ہوئے تھے۔

بعض اطلاعات کے مطابق دھماکے کا نشانہ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے کالعدم حافظ گل بہادر گروپ کے کمانڈروں بھی بنے، تاہم افغان طالبان کے نگران وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے مختصر پیغام میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس حوالے سے ’ہم معلومت لے رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حافظ گل بہادر گروپ زیادہ تر کارروائیاں وزیرستان میں کرتا ہے اور 2007 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے بننے کے بعد دونوں میں الحاق ہو گیا تھا، لیکن ایک سال بعد 2008 میں ہی انہوں نے راہیں جدا کر دی تھیں۔  

حافظ گل بہادر گروپ 2004 میں بننے کے بعد زیادہ تر افغانستان میں امریکیوں کے خلاف کارروائیاں کرتی تھیں، اور اس تنظیم کا پاکستانی حکومت کے حوالے سے نرم رویہ تھا۔ اسی گروپ کے ساتھ پاکستان کے اس وقت کی حکومت نے دو امن معاہدے بھی کیے تھے لیکن بعد میں وہ ناکام ہوگئے تھے۔

حافظ گل بہادر گروپ کے ایک اہم کمانڈر صادق نور کو افغان طالبان کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے اور افغان طالبان کے ساتھ ان کے تعلقات 1996 سے ہیں، جب افغان طالبان نے افغانستان میں پہلی مرتبہ حکومت قائم کی تھی۔ 

فارن پالیسی میگزین کے ایک جریدے کے مطابق حافظ گل بہادر گروپ کے اہم کمانڈر صادق نور 80 کی دہائی میں سابق سویت یونین کے خلاف بنے ‘ممبہ العلوم مدرسہ’ کے انتظامات سنبھالتے تھے، جہاں ‘افغان جہاد’ کی تیاری کی جاتی تھی۔ اسی مدرسے کو 2008 میں امریکی ڈرون حملے میں تباہ کیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا