اسرائیلی ملاقات: لیبیا کی معطل وزیر خارجہ ملک چھوڑ گئیں

امریکی خبر رساں ادارے اے پی نے لیبیا کی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیلی اعلان کے بعد منقوش ترکی فرار ہو گئی ہیں۔

لیبیا کی خاتون وزیر خارجہ نجلا منقوش کو اسرائیلی ہم منصب سے ملاقات کے بعد معطل کر دیا گیا تھا اور اب اطلاعات ہیں کہ وہ ملک چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔

اسرائیل نے انکشاف کیا تھا کہ اس کے چیف سفارت کار ایلی کوہن نے گذشتہ ہفتے ان سے ملاقات کی تھی جس کے بعد لیبیا میں احتجاج شروع ہو گئے۔

وزیر اعظم عبدالحمید دبیبہ نے، جو لیبیا کی حریف حکومتوں میں سے ایک کے سربراہ ہیں، اعلان کیا تھا کہ انہوں نے وزیر خارجہ نجلا منقوش کو معطل کر دیا اور ان کے خلاف تحقیقات کے لیے کہا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے اے پی نے لیبیا کی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیل کی طرف سے دونوں وزرائے خارجہ کی ملاقات کے اعلان کے بعد منقوش ترکی روانہ ہو گئی ہیں۔

لیبیا اور اسرائیل کے اعلیٰ سفارت کاروں کے درمیان یہ پہلی ملاقات تھی۔ دبیبہ نے البتہ یہ واضح نہیں کیا کہ منقوش سے کس بنیا پر تفتیش کی جائے گی۔

اس ملاقات کے خلاف لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کی سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے۔ احتجاج کے دوران نوجوانوں نے سڑکیں بند کیں، ٹائر جلائے اور فلسطینی پرچم لہرائے۔

عرب نیوز کے مطابق قومی اتحاد کی حکومت (جی این یو) کے سربراہ نے اتوار کو وزیر خارجہ کو معطل کرنے کا اعلان کیا اور ان کے خلاف تحقیقات کی سفارش کی ہے۔

اس سارے معاملے سے قبل اسرائیلی وزیرخارجہ ایلی کوہن نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے گذشتہ ہفتے روم میں نجلا منقوش سے ملاقات کی تھی۔

اسرائیلی وزیر خارجہ کے بیان کے بعد لیبیا کی صدارتی کونسل، جو سربراہ مملکت کے طور پر کام کرتی ہے، نے وضاحت کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد وزیراعظم عبدالحمید دبیبہ نے وزیر خارجہ کی معطلی کا حکم جاری کیا۔

لیبیا کی سیاست میں مشاورتی کردار ادا کرنے والی اعلیٰ ریاستی کونسل نے بھی اس ملاقات کی رپورٹس پر ’حیرت‘ کا اظہار کیا اور کہا کہ ذمہ داروں کا ’احتساب ہونا چاہیے۔‘

وزیراعظم عبدالحمید دبیبہ نے اتوار کی شام فیس بک پر پوسٹ کیے گئے ایک سرکاری فیصلے میں کہا کہ وزیر خارجہ منقوش کو ’عارضی طور پر معطل‘ کر دیا گیا ہے اور وزیر انصاف کی سربراہی میں ایک کمیشن ان کی ’انتظامی تحقیقات‘ کرے گا۔

اس ملاقات کے بارے میں اسرائیل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ وزرا نے ممکنہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

مذکورہ اسرائیلی بیان سے اتوار کی شام طرابلس اور اس کے مضافات کی سڑکوں پر مظاہرے شروع ہو گئے جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے سے انکار کی علامت ہیں۔

جس کے بعد احتجاج دوسرے شہروں تک پھیل گیا جہاں نوجوانوں نے سڑکیں بند کیں، ٹائر جلائے اور فلسطینی پرچم لہرائے۔

خبر رساں ویب سائٹ دی لیبیا اپ ڈیٹ نے خبر دی کہ مظاہرین نے روم میں منقوش اور کوہن ملاقات کی مذمت  کے لیے طرابلس میں وزارت خارجہ کے صدر دفتر پر دھاوا بول دیا۔

’ایک عام سی ملاقات‘

لیبیا کی وزارت خارجہ نے واضح کیا ہے کہ ’نجلہ منگوش نے اسرائیلی نمائندوں کے ساتھ ملنے سے انکار کر دیا تھا اور جو کچھ ہوا وہ اٹلی کی وزارت خارجہ میں ہونے والی ملاقات کے دوران غیر تیاری اور غیر معمولی ملاقات تھی۔‘

لیبیا کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اس واقعے کو ’ملاقات یا مذاکرات‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

 بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ملاقات میں ’کوئی بات چیت، معاہدہ یا مشاورت‘ نہیں ہوئی اور وزارت اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کو مکمل طور پر رد کرتی ہے۔

اسرائیلی وزارت خارجہ کے بیان میں کوہن کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے ’لیبیا میں یہودیوں کے ورثے کے تحفظ کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا جس میں ملک کے اندر یہودی عبادت گاہوں اور یہودی قبرستانوں کی تزئین و آرائش بھی شامل ہے۔‘

کوہن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’میں نے وزیر خارجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات کے وسیع امکانات کے بارے میں بات کی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسرائیلی وزیر خارجہ کا کہنا ہے ’اطالوی وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے ملاقات میں کرانے سہولت فراہم کی اور انسانی امور، زراعت اور پانی کے انتظام میں ممکنہ تعاون اور اسرائیلی امداد پر تبادلہ خیال کیا گیا۔‘

روم کی جانب سے اس ملاقات کی فوری طور پر کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔

لیبیا الاحرار ٹی وی کے مطابق اتوار کی شام لیبیا کی صدارتی کونسل نے حکومت سے ’وضاحت‘ طلب کی تھی۔

صدارتی کونسل میں لیبیا کے تین صوبوں کی نمائندگی کرنے والے تین ارکان شامل ہیں۔ اس کے پاس کچھ ایگزیکٹیو اختیارات ہیں اور یہ کونسل اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ سیاسی عمل سے وجود میں آئی ہے۔

اس خط میں کہا گیا ہے کہ یہ پیش رفت لیبیا کی ریاستی خارجہ پالیسی کی عکاسی نہیں کرتی، لیبیا کے قومی استحکام کی نمائندگی نہیں کرتی اور اسے لیبیا کے قوانین کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔ اس میں حکومت کے سربراہ سے کہا گیا ہے کہ ’اگر یہ ملاقات ہوئی ہے تو وہ قانون کا اطلاق کریں۔‘

معاہدہ ابراہیمی

 2020  کے بعد سے اسرائیل نے امریکہ کی ثالثی میں ہوئے ’معاہدہ ابراہیمی‘ کے ذریعے متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں۔

دوسری جانب لیبیا کی خارجہ پالیسی اس کی اندرونی تقسیم کے باعث پیچیدہ ہے۔

قومی اتحاد کی حکومت 2021 کے شروع میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ امن عمل کے ذریعے قائم کی گئی تھی لیکن انتخابات کے انعقاد کی ناکام کوشش کے بعد 2022 کے آغاز سے مشرقی علاقے کی پارلیمان نے اس کی قانونی حیثیت کو چیلنج کر رکھا ہے۔

جی این یو کی جانب سے خارجہ پالیسی کے سابق اقدامات بشمول ترکی کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو پارلیمنٹ نے مسترد کر دیا تھا اور انہیں قانونی چیلنجز کا سامنا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا