پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے انسداد گداگری ایکٹ کے تحت گداگروں کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے پہلی مرتبہ بھیک مانگنے والوں کا ڈیٹا ریکارڈ کرنا شروع کیا ہے۔
آپریشن کے نتیجے میں مختلف عمر اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے 88 گداگروں کو تحویل میں لیا گیا۔
ڈپٹی کمشنر پشاور شاہ فہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عیدالاضحی کے بعد شہر میں گداگروں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا اور کئی شہریوں نے شکایات درج کرائیں۔
انہوں نے کہا کہ گداگری کو لگام دینے اور آپریشن کو کامیاب بنانے کے لیے پہلی مرتبہ ایک جامع حکمت عملی اپنائی گئی ہے، جس کے تحت ضلعی انتظامیہ سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور صوبائی محکموں نے مشترکہ منصوبہ بنایا۔
’یہی وجہ تھی کہ فیز ون آپریشن کامیاب رہا۔ ورنہ شائد ہم 15 گداگر بھی نہ پکڑ سکتے۔‘
انہوں نے کہا کہ پکڑے جانے والے گداگروں کا تعلق پشاور، خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع، پنجاب اور سندھ سے ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے گداگروں کے علاوہ دوسرے صوبوں کی حکومتوں اور اداروں سے بھی رابطے کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ اپنے شہریوں کو یہا سے لے جا کر اس مسئلے سے مؤثر طریقے سے نمٹ سکیں۔
گداگروں کے خلاف آپریشن کا طریقہ کار
ڈپٹی کمشنر شاہ فہد نے کا کہنا تھا کہ جن تمام اداروں کو حکمت عملی ترتیب دینے میں شامل کیا گیا تھا، ان کے سربراہان و اہلکار بھی آپریشن کے دوران موجود تھے۔
’ہم ایمبولینس، بسیں اور لیڈی کانسٹیبلز لے کر گئے تھے اور گداگروں کو نہایت عزت کے ساتھ بحالی مراکز منتقل کیا۔ زمونگ کور اور دارالکفالہ نے ان کو کھانا اور بورڈنگ مہیا کیں۔‘
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ڈیٹا مرتب ہونے کے بعد ضرورت مندوں اور پیشہ ور گداگروں کو الگ کرکے اوّلالذکر کو محکمہ سماجی بہبود کے ذریعے ہنر سکھایا جائے گا۔
’پیشہ ور گدا گروں کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی اور ان کی اخلاقی تربیت کرکے اس ضمانت پر چھوڑا جائے گا کہ آئندہ وہ اس کام کی طرف نہیں آئیں گے۔‘
ضرورت کے تحت مانگنے والوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ایسے افراد میں معذور اور خطِ غربت سے انتہائی نیچے زندگی بسر کرنے والے شامل ہوتے ہیں۔
’ان کو ہم ہنر تو دلوا سکتے ہیں، لیکن انہیں ماہانہ خرچہ دینے کے لیے کچھ نہیں دیتے، یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ بھاگ جاتے ہیں۔ اس کے لیے بڑے پیمانے پر حکومت کو ہی کوئی پالیسی بنانا ہو گی۔‘
ضلعی انتظامیہ کے مطابق فیز ون آپریشن پشاور سٹی سے شہر کے مضافات میں جدید بستی حیات آباد تک میں سرانجام دیا گیا۔
گداگروں کا ڈیٹا مرتب کرنے کی ضرورت
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈپٹی کمشنر پشاور نےکہا کہ ڈیٹا مرتب کرنے کے لیے گداگروں کے بنیادی معلومات بشمول نام، جگہ پیدائش، خاندان، جنس، عمر، صوبہ، موجودہ رہائش، و دیگر معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس ڈیٹا کی مدد سے پیشہ ور گداگروں اور ضرورت کے تحت بھیک مانگنے کے درمیان تفریق ممکن ہو سکے گی۔
’اسی ڈیٹا سے ہمیں گداگروں کے ہاٹ سپاٹس بھی معلوم ہو جائیں گے، جہاں پولیس اہلکاروں کو تعینات کر دیا جائے گا تاکہ ان پر نظر رکھی جا سکے۔
پشاور یونیورسٹی میں سماجی علوم پڑھانے والے پروفیسر سجاد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بھیک مانگنے والوں کی بڑی تعداد اکثر پیشہ ور افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔
’80 فیصد گداگر پیشہ ور ہوتے ہیں۔ اگر کبھی کوئی گداگروں پر نظر رکھے تو معلوم ہوگا کہ ان کے آس پاس کئی دیگر ملوث افراد بھی موجود ہوتے ہیں، جو ہر کچھ گھنٹے بعد جمع شدہ رقوم لے جاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پیشہ ور گداگر معاشرے میں تناؤ کی فضا پیدا کر کے عام شہریوں کے لیے پریشانی کا باعث بننے کے علاوہ کئی دقوسرے سماجی مسائل پیدا کرتے ہیں۔