بجلی مہنگی ہونے سے برآمدات کتنی متاثر ہو رہی ہیں؟

ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے برآمدات بھی کم ہو رہی ہے جبکہ روایتی کے ساتھ جدید اشیا تیار کر کے درآمدات میں شامل کرنے کی بھی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔

کراچی میں ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں کام کرتے ورکر کی یہ تصویر سات اپریل 2011 میں لی گئی تھی (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

پاکستان میں بجلی کی قیمت اور ٹیکسز کی وجہ سے بلوں میں اضافے پر ملک بھر میں شہری سراپا احتجاج ہیں۔ اس حوالے سے جمعرات کو ملک کے بعض شہروں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی گئی ہے۔

نگران حکوت کا کہنا ہے کہ بجلی کے بلوں میں شامل ٹیکسوں سے متعلق آئی ایم ایف سے بات کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

جبکہ وزیر خزانہ کے بقول مالی مشکلات کے باعث نگران حکومت خود سبسڈی نہیں دے سکتی ہے۔

دوسری جانب تمام سیاسی جماعتوں نے بھی عوامی ردعمل سے یکجہتی کرتے ہوئے بلوں میں غیر معمولی اضافہ پر تشویش کا اظہار کیاہے۔

مگر ماہرین معیشت کے مطابق آئی ایم ایف سے معاہدہ اپنی جگہ لیکن پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ ’غیر منصفانہ تقسیم‘، بااثر طبقے کو اربوں روپے کی مفت بجلی کی فراہمی، بجلی چوری بھی ہے۔

ماہرین کے بقول ’بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے برآمدات بھی کم ہو رہی ہیں جبکہ روایتی کے ساتھ جدید اشیا تیار کر کے درآمدات میں شامل کرنے کی بھی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔‘

برآمدات میں کمی اور متبادل حل

پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) نے پچھلے ہفتے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق ٹیکسٹائل برآمدات میں ماہانہ بنیادوں پر 11 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ رواں مالی سال جولائی کے دوران ٹیکسٹائل کی برآمدات 1311.659 ملین ڈالرز رہیں جو گذشتہ سال 23۔2022 کے اسی مہینے یعنی جولائی کے دوران 1,481.173 ملین ڈالر تھیں اور اس میں 11.44 فیصد کی کمی واقع ہوئی جبکہ سوتی دھاگے کی برآمدات میں 35.96 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ٹیکسٹائل اشیا جو تجارت کی نمو میں حصہ ڈالتی ہیں جس میں سوتی دھاگہ بھی شامل ہے کی برآمدات جولائی 2023 کے دوران 35.96 فیصد اضافے کے ساتھ 97.031 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں جو گذشتہ سال جولائی میں 71.365 ملین ڈالر تھیں۔

دیگر اجناس جن کی تجارت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ان میں خیمے، کینوس اور ترپالیں شامل ہیں، جن کی برآمدات 9.02 فیصد اضافے کے ساتھ تجارت 9.523 ملین ڈالر ہو گئی ہے جو گذشتہ سال 8.735 ملین ڈالر پر تھیں جبکہ کاٹن کارڈڈ کی برآمدات 100 فیصد اضافے کے ساتھ 0.209 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔

رپورٹ کے مطابق ٹیکسٹائل اشیا جن کی تجارت میں منفی نمو دیکھنے میں آئی ان میں کاٹن کپڑا شامل ہے جس کی برآمدات 22.56 فیصد کم ہو کر 181.985 ملین ڈالر سے 140.936 ملین ڈالر رہ گئی ہیں۔

اسی طرح نٹ ویئر کی برآمدات بھی 16.13 فیصد کم ہو کر 434.642 ملین ڈالر سے 364.541 ملین ڈالر، بیڈ وئیر کی 14.60 فیصد کمی کے ساتھ برآمدات 253.988 ملین ڈالر سے 216.910 ملین ڈالر، تولیے کی برآمدات 2.93 فیصد کمی ہوئی اور تیار ملبوسات کی برآمدات 86.67 ملین ڈالر سے کم ہو گئیں اور 304.571 ملین ڈالر سے 274.733 ملین ڈالر پر آگئی ہیں۔

آرٹ، ریشم اور مصنوعی ٹیکسٹائل کی برآمدات بھی 31.218 ملین ڈالر سے 16.18 فیصد کم ہو کر 26.167 ملین ڈالر رہ گئیں، میک اپ آرٹیکل (تولیے اور بیڈ ویئر) کو چھوڑ کر 51.039 ڈالر سے 55.199 ملین ڈالر تک گر گئیں جن میں 7.54 فیصد کمی آئی ہے۔

سابق چیف اکنامسٹ آف پاکستان ڈاکٹر پرویز طاہر کا کہنا ہے کہ ’اس وقت پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث صنعت کاروں سے زیادہ عام شہری اور غریب پریشان ہیں۔ معیشت کی بہتری کے ساتھ حکومت کو پہلے عام لوگوں کی پریشانی کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ڈاکٹر پرویز طاہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کا ’یہاں سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی غیر منصفانہ تقسیم رہی ہے لیکن اس کے لیے سیاسی مجبوریوں کے تحت فیصلے نہیں ہوسکتے۔‘

ان کے بقول ’ملک کے بااثر طبقے اور مختلف اداروں کو اربوں روپے کی بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے۔ کئی علاقوں میں بجلی چوری کی جاتی ہے جس سے لاسز اربوں میں ہوتے ہیں اور یہ سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔‘

’آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے اپنی جگہ لیکن ہم نے کبھی اپنی ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے موثر اقدامات اٹھائے ہی نہیں۔ آج بھی وہی روایتی چیزیں ایکسپورٹ ہوتی ہیں جو 50 سال پہلے ہوتی تھیں۔ نئی پیداوار کے مواقع پیدا کرنے کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماہر معیشت الماس حیدر بھی ڈاکٹر پرویز طاہر سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیشہ سے ہی مراعات سے ایک طبقے کو نوازنے کا سلسلہ جاری ہے۔ عوام اور خواص میں فرق کر کے پالیسیاں بنانے سے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔‘

الماس حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافے اور ٹیکسوں کا دباؤ عام آدمی پر سرمایہ داروں سے زیادہ ڈالا جاتا رہا ہے۔ ایکسورٹ کم ہونے پر بھی فیکٹریوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی تنخواہیں کم ہوتی ہیں۔ سیٹھ اپنا منافع کم نہیں کرتے۔‘

’ملک کا جتنا بڑا سرمایہ دار ہوگا وہ اتنی زیادہ مراعات لے گا، بجلی بھی بڑے افسران، بڑے صنعت کاروں یا طاقت ور طبقے کے لیے مفت عام آدمی کے لیے مہنگی ہے۔ ایکسپورٹ کی کمی سے بھی ملکی معیشت کے ساتھ عام آدمی کو ہی فرق پڑتا ہے کیونکہ مراعات یافتہ طبقہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیتا ہے۔‘

الماس حیدر کے بقول ’جب تک بجلی کی تقسیم تمام طبقات میں یکساں نہیں ہوگی ٹیکس برابر نہیں ہوں گے، نہ معاشی مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی معاشی بحران ختم ہوسکے گا۔‘

برآمدات میں کمی اور پیداواری لاگت میں اضافے پر بات کرتے ہوئے پاور لومز ایسوسی ایشن پاکستان کے چیئرمین وحید رامے کہتے ہیں کہ ’پیداواری لاگت میں 40 اضافہ ہوا ہے جس سے ہزاروں پاور لومز بند ہونے سے کاروبار ٹھپ جبکہ مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے وحید رامے نے کہا کہ ’ابھی جزوی طور پر پاور لومز انڈسٹری بند ہو رہی ہے، حالات ایسے ہی رہے تو مکمل بند ہوسکتی ہے۔ بجلی کی قیمت بڑھنے سے لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے بیرون ملک کمپنیوں کے آرڈرز پورے نہ ہونے پر آرڈر بھی منسوخ کیے جا رہے ہیں۔‘

سپورٹس کا سامان درآمد کرنے والے سی اے کمپنی کے مالک زاہد جاوید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پہلے ہی پیداواری لاگت بڑھنے سے عالمی مارکیٹوں میں پاکستانی سامان فروخت کرنا دشوار رہا ہے۔ اب بجلی کی قیمتوں اور بلوں میں ٹیکس اضافے سے پیداواری لاگت مزید بڑھ چکی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’دیگر ملکوں کے مقابلہ میں جب ہماری اشیا مہنگی ہوتی ہیں تو کوئی نہیں خریدتا۔ بجلی کی مسلسل قیمتوں میں اضافے کے باعث ہمیں بار بار اشیا کی قیمت بڑھانی پڑتی ہے جس سے پارٹیاں خراب ہوتی ہیں۔‘

’ہماری درآمدی اشیا دوسرے ممالک کے مقابلے میں معیاری بھی ہوں تو بھی قیمت زیادہ ہونے کے باعث عالمی مارکیٹ میں توجہ حاصل نہیں کر سکتیں۔ اس حوالے سے کوئی بھی موثر پالیسی سامنے نہیں آئی جب تک ایکسپورٹ نہیں بڑھے گی معاشی بحران کیسے ختم ہوگا؟‘

بجلی کی قیمتوں پر سیاسی بیان بازی

پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اس وقت ملک کی اقتصادی صورت حال سنگین ہوچکی ہے اور بجلی کے بل عوام نہیں دے سکتے۔‘

شیری رحمان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے ملک میں بجلی کے بلوں پر خطے میں سب سے زیادہ ٹیکس لگے ہیں۔ غریب اگر بل دینا بند کر دیں گے تو ریوینیو کہاں سے آئے گا۔‘

نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ ’ملکی معیشت کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ڈالر ان فلو کم اور آؤٹ فلو زیادہ ہونے کے باعث روپیہ دباؤ میں ہے۔‘

’آئندہ منتخب حکومت کے لیے آئی پی پیز سے دوبارہ بات چیت کرنا ضروری ہے۔ ہمارے پاس مالی گنجائش نہیں ہے یا جس کی وجہ سے سبسڈی نہیں دے سکتے۔ آئی ایم ایف معاہدہ ہمیں ورثے میں ملا ہے اس پر دوبارہ بات چیت ممکن نہیں ہے۔‘

تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز نے سینیٹ کمیٹی میں کہا کہ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں زیادہ فرق ہے۔ ’موخر ایل سیز دبئی، کوریا اور چین جا رہی ہیں جو کہ ایک سال کی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ایل سیز کا معاملہ بہت گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ آئی پی پیز کو کپیسٹی چارجز کی مد میں بڑی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔ اب صنعت کاروں سمیت گھریلو صارفین بھی بجلی کے بلوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت