اکرم کراچی میں کرائے کے گھر میں رہتے ہیں۔ انہوں نے ایم اے اکنامکس کر رکھا ہے اور نجی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان کی تنخواہ 30 ہزار روپے ہے اور اس ماہ بجلی کا بل 22 ہزار روپے آیا ہے۔
چار بچوں، ایک بیوی اور بوڑھے ماں باپ کی ذمہ داری ان پر ہے۔ تین ماہ سے گھر کا کرایہ ادا نہیں کیا اور بچوں کو بھی سکول سے ہٹا لیا ہے۔ اکرم کہتے ہیں کہ انہوں نے سوچا تھا کہ ’پی ڈی ایم کی حکومت جانے کے بعد نگران حکومت میں قابل ماہر معیشت ہوں گے، جو عوام کا خیال کریں گے، مہنگائی پر قابو پائیں گے اور روزگار کے مواقع بڑھائیں گے۔
’لیکن نگران حکومت کے آتے ہی حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ اس ماہ بجلی کا بل ادا کرنے کے بعد راشن کے پیسے نہیں بچے۔ دکان سے ادھار راشن لیا ہے۔‘
اکرم سوچتے ہیں کہ اگر اس حکومت کے ابتدائی دنوں میں یہ حالات ہیں تو جب یہ حکومت ختم ہو گی تب حالات اس سے بھی برے ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’پچھلے 15 دنوں میں میری قوتِ خرید اتنی کم ہو گئی ہے جو پچھلے ایک سال میں بھی نہیں ہوئی اور اس کی ذمہ دار نگران حکومت ہے۔‘
اکرم کی رائے محترم ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا نگران حکومت عوام کو ریلیف دینے کی پوزیشن میں ہے اور اس کے پاس ریلیف دینے کا کتنا مارجن ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس حوالے سے کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگر نگران حکومت کے پاس ڈالر، بجلی اور پیٹرول کے ریٹس بڑھانے کا مارجن ہے تو انہیں کم کرنے کا بھی مارجن موجود ہے۔
’حکومت کے پاس ایمرجنسی فنڈز ہوتے ہیں جن سے ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ جب عوام کی بات آتی ہے تو یہ آئی ایم ایف سے پوچھنے چلے جاتے ہیں اور جب ذاتی اخراجات اور مراعات کی بات آتی ہے تب آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاتے۔ صدر صاحب نے دو مرتبہ تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ یہ منافقت ہے جس کی سزا عوام کو مل رہی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ڈالر ریٹ کا بڑھنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ آج انٹربینک اور گرے مارکیٹ کا فرق تقریباً 35 روپے ہو گیا ہے لیکن اسے کنٹرول کرنا نگران حکومت کے بس میں ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ سرحدوں سے ڈالر سمگلنگ کو روکنے کے لیے جو مینڈیٹ چاہیے وہ ان کے پاس ہے لیکن شاید یہ کنٹرول کرنا نہیں چاہتے۔ اس کے علاوہ مینڈیٹ نہ ہونے کا دعویٰ غلط ہے۔ پی ڈی ایم حکومت جاتے جاتے انہیں بہت مینڈیٹ دے گئی ہے۔‘
لاہور چمبر آف کامرس اینڈ انڈسڑی پروگریسو گروپ کے صدر خالد عثمان کہتے ہیں کہ نگران حکومت کا عوام کو سب سے بڑا ریلیف انتخابات کی تاریخ ہوگا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’اگر نگران حکومت پاکستانی عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو وہ الیکشن کی تاریخ دے دے۔ اس سے مارکیٹ میں ٹھہراؤ آئے گا۔ بلاشبہ نگران حکومت کو یہ مسائل وراثت میں ملے ہیں اور وہ چند دنوں میں انہیں ٹھیک نہیں کر سکتی۔‘
خالد عثمان کے مطابق: ’بجلی کے موجودہ بل پی ڈی ایم حکومت کے دور کے ہیں۔ ایکسچینج ریٹ میں مداخلت نہ کرنے کے معاہدے بھی پرانے ہیں۔ بجلی کے بلوں کی اگر قسطیں کر دی جائیں تو وہ بھی عارضی ریلیف ہو گا۔ تین ماہ بعد عوام بل کیسے ادا کریں گے لیکن بہت سے مسائل ایسے ہیں جو انہوں نے خود پیدا کیے ہیں۔ جب سے نگران حکومت آئی ہے ملک میں تاریخ کی سب سے بڑی سمگلنگ ہو رہی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’عوام کو ریلیف نہ ملنے کا مسئلہ صرف نگران حکومت کا نہیں ہے بلکہ بزنس کمیونٹی کی نمائندہ تنظیموں کا بھی ہے۔ بزنس کمیونٹی عوام کی نمائندگی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بزنس کمیونٹی نے چیمبرز پر جتنی سرمایہ کاری کی وہ بھی ضائع ہو گئی ہے۔ ملک بھر کے چیمبرز کو چاہیے کہ وہ نگران حکومت سے کم از کم یہ پوچھے کہ ان کے پاس مسائل حل کرنے کے لیے کیا پالیسی ہے۔ ملک کے تمام بڑے چیمبرز کے دباؤ سے عوام کو ریلیف ملنے کے راستے کھل سکتے ہیں۔‘
اس سارے معاملے پر ٹاپ لائن سکیوریٹیز کے ڈپٹی ہیڈ آف ریسرچ سنی کمار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سٹاک مارکیٹ کریش کرنے کی وجہ نگران حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دوسری مرتبہ بڑا اضافہ ہے۔ مارکیٹ توقع کر رہی ہے کہ شرح سود میں بھی اضافہ ہو گا۔ ایسے حالات میں بزنس نہیں ہو سکتا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’خبر ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کرے گا۔ اگر یہ حکومت بیرونی سرمایہ کاری لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو سٹاک مارکیٹ میں بھی بہتری کی امید بن جائے گی۔ ملکی معیشت کو ریلیف دینا نگران حکومت کی پالیسیوں پر منحصر ہے۔ بظاہر یہ لمبے عرصے کے لیے آئے ہیں۔ پالیسیوں میں مستقل مزاجی سے حالات بہتر کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘
سیالکوٹ چیمبر آف کامرس انڈسٹری کے سابق صدر میاں نعیم جاوید صاحب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نگران حکومت کی یہ کارکردگی نئی نہیں ہے۔ ماضی میں بھی نگران حکومتیں اسی طرح کی کارکردگی دکھاتی رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ’2018 میں جب شمشاد اختر نگران وزیر خزانہ تھیں تو ڈالر تقریباً 13 فیصد بڑھا تھا۔ مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا تھا اور شرح سود بھی بڑھی تھی۔ ان پر کوئی عوامی بوجھ نہیں ہے، اس لیے ان سے ریلیف کی توقع کرنا عبث ہے۔ جب تک الیکشن نہیں ہو جاتے، حالت بہتر ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔‘