طورخم بارڈر بندش، نہ پینے کا پانی ہے نہ رہنے کی جگہ: ٹرک ڈرائیور

دونوں ممالک کے درمیان چھ ستمبر کو ضلع خیبر میں واقع طورخم سرحد کے دروازے کو بارڈر فورسز کے درمیان جھڑپ کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔ نتیجتاً دونوں جانب سے مسافر اور مال بردار گاڑیوں کی آمدورفت اور نقل و حرکت بند ہے۔

پاکستان اور افغانستان کی بارڈر فورسز کے درمیان طورخم کے مقام پر حالیہ جھڑپ کے نتیجے میں بارڈر تاحال بند ہے جس کے باعث سرحد کی دونوں جانب ٹرک ڈرائیوروں اور مسافروں کی مشکلات میں شدید اضافہ ہو گیا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان چھ ستمبر کو ضلع خیبر میں واقع طورخم سرحد کے دروازے کو بارڈر فورسز کے درمیان جھڑپ کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔ نتیجتاً دونوں جانب سے مسافر اور مال بردار گاڑیوں کی آمدورفت اور نقل و حرکت بند ہے۔

اس حوالے سے طورخم ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر حاجی عظیم اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ صورتحال اتنی خراب ہو چکی ہے کہ لنڈی کوتل سے جمرود تک کنٹینر ڈرائیور پینے کے پانی کے لیے بھی ترس رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سرحد کی دونوں جانب کھڑے ٹرکوں میں لاکھوں روپے مالیت کی خوردو نوش کی اشیا خراب ہو رہی ہیں۔

’میں پانچ ٹرکوں کا مالک ہوں اور گذشتہ پانچ روز سے اپنے ڈرائیوروں کے علاوہ کئی دوسروں کو بھی مسلسل پانی پہنچانے کا انتظام کر رہا ہوں۔ اتنی ہی لمبی قطاریں بارڈر کے اس پار بھی ہیں۔‘

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ وقتوں میں متعدد مرتبہ ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں جس کے بعد سرحد کو بند کیا جاتا رہا ہے۔ طورخم بارڈر کو آخری مرتبہ رواں سال فروری میں بھی بند کیا جا چکا ہے۔

اب کی بار بھی سرحد کو بند ہوئے چار دن سے زیادہ ہو چکے ہیں جبکہ تاحال سرحد کھلنے کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی اطلاعات سامنے نہیں آئی ہیں۔‘

تاہم اس واقعے کے پانچویں دن یعنی 10 ستمبر کو دونوں اطراف کی فورسز کے درمیان ’زیرو لائن‘ پر ایک میٹنگ ہوئی، جس کے بعد پاکستان کی جانب سے گیٹ پر تعینات کسٹم حکام نے گیٹ کے کھلنے کی توقع ظاہر کی تھی۔

ضلع خیبر کے اسسٹنٹ کمشنر ارشاد علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ میٹنگ بغیر کسی حتمی نتیجے کے ختم ہوئی تھی۔

بارڈر بندش سے نقصان اور مشکلات

 طورخم ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر حاجی عظیم اللہ کے مطابق تقریباً 16۔17 سو ٹرک پشاور ۔ طورخم شاہراہ پر کھڑے ہوئے ہیں۔

افغانستان سے تعلق رکھنے والے ٹرک ڈرائیور رحمت اللہ کہتے ہیں کہ ان کے ’پاس صرف 80 روپے رہ گئے ہیں، اور وہ اس وقت لنڈی کوتل بازار کے ہوٹل مالکان سے ادھار پانی اور کھانے کی چیزیں حاصل کر رہے ہیں۔‘

رحمت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا ٹرک مالک افغانستان میں ہے، وہ ہمیں صرف دس دن کا خرچ دیتے ہیں، زیادہ ہو جائے تو واپسی پر دے دیتے ہیں۔‘

’حالات اس وقت یہ ہیں کہ کچھ ڈرائیور ایسی جگہ پھنس گئے ہیں، جن کے لیے نہ پشاور اور نہ لنڈی کوتل جانا آسان ہے۔ ٹرکوں میں کروڑوں کا سامان ہے۔ اپنی جگہ بھی نہیں چھوڑ سکتے۔‘

رحمت اللہ نے مزید بتایا کہ ’افغانستان جانے والے کئی لوگوں نے قریبی مساجد اور سرکاری عمارتوں میں پناہ لے رکھی ہے، جبکہ کچھ واپس پشاور چلے گئے ہیں۔‘

پشاور سے طورخم کی طرف جانے والے زیارت گل نامی ٹرک ڈرائیور نے شکوہ کیا کہ ’یہاں سینکڑوں گاڑیاں کھڑی ہیں، مال خراب ہو رہا ہے اور بیوپاری بھی ہمیں پیسے نہیں دے سکتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زیارت گل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لڑائی ان (ممالک) کی ہوتی ہے اور زور ہم پر پڑتا ہے۔ یہ کیسے ملک ہیں، یہ کیسی حکومت ہے۔‘

اسی طرح طارق خان نامی ٹرک ڈرائیور کا کہنا ہے کہ ’جو بھی نقصان ہوتا ہے وہ ہمیں ہی بھرنا پڑتا ہے۔ صرف ہمارا کرایہ ہی ڈیڑھ لاکھ روپے ہے۔

پاکستان اور افغانستان کا کیا کہنا ہے؟

دوسری جانب پاکستانی وزارت خارجہ نے طورخم بارڈر پر حالیہ جھڑپ کی وجوہات بتاتے ہوئے افغان وزارت خارجہ کے تحریری بیان کو ’بےبنیاد‘ اور ’حیران کن‘ قرار دیا ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ نے پیر کو اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ ’صرف انتہائی تشویش ناک صورت حال میں بارڈر گیٹ کی بندش کی جاتی ہے، جیسا کہ چھ ستمبر 2023 کا واقعہ یا پھر جب افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں شدت پسندی کے لیے استعمال کیا جاتا ہو۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’باوجود ان حالات کے پاکستان نے مذاکرات کی راہ اپناتے ہوئے ہمیشہ دو طرفہ امن کی بات کی اور افغان بھائی بہنوں کو خوش آمدید کہا ہے۔‘

میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے افغان وزارت خارجہ کے حالیہ تحریری بیان پر ردعمل میں کہا کہ ’یہ بیان حیران کن اس لیے ہے کہ پاکستانی فورسز نے پرامن طریقے سے افغان فورسز کو بارڈر پر غیر ضروری تعمیر سے روکا تھا لیکن افغان فورسز نے جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے فائرنگ کی ابتدا کی اور دونوں جانب کے شہریوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالے سمیت انفراسٹکچر کو بھی نقصان پہنچایا۔‘

افغان وزارت خارجہ نے اپنے حالیہ تحریری بیان میں طورخم بارڈر پر چھ ستمبر سے جاری کشیدگی کے حوالے سے کہا تھا کہ ’افغان فورسز ایک پرانی پوسٹ کی تعمیر میں مصروف تھیں جب پاکستانی فورسز نے فائرنگ کی۔‘

اگرچہ تازہ بیانات میں دونوں ممالک کے وزارت خارجہ نے دو طرفہ تعلقات اور اقتصادی فوائد حاصل کرنے کے لیے مذاکرات پر زور دیا ہے، تاہم دوسری جانب پاکستانی فورسز  تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف برسرپیکار ہیں۔

حالیہ واقعات میں چترال اور پشاور میں 11 ستمبر 2023 کو فرنٹیئر کور کے قافلے پر حملہ شامل ہے، اگرچہ موخرالذکر کے حوالے سے اس رپورٹ کے شائع ہونے تک کسی شدت پسند تنظیم نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔

(اضافی رپورٹنگ: صحافی محراب آفریدی)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان