معاہدہ اوسلو کے 30 سال کون لوٹائے گا؟

فلسطینی قیادت اور اسرائیل کی کمزور سیاسی خواہش جدید دور کے سب سے بڑے سیاسی چکمے عرف معاہدہ اوسلو کی تخلیق کا باعث بنی۔

اس تصویر میں 13 ستمبر 1993 کو وائٹ ہاؤس میں اوسلو معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد فلسطینی رہنما یاسر عرفات پہلی بار اسرائیلی وزیر اعظم اضحاک رابین ہاتھ ملا رہے ہیں جبکہ ان کے پس منظر میں امریکی صدر بل کلنٹن بھی موجود ہیں (فائل فوٹو اے ایف پی)

تین دہائیاں قبل آج ہی کے دن (13 ستمبر 1993) تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) اور اسرائیل کے درمیان ’اعلان مبادی عبوری خود اختیاری انتظامات‘ پر واشنگٹن میں دستخط ثبت ہوئے۔ اس ڈیکلریشن کو عرف عام میں معاہدہ اوسلو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بدنام زمانہ معاہدے تک پہنچنے سے پہلے دونوں فریقوں کے درمیان ناروے کے شہر اوسلو میں خفیہ مذاکرات کا ایک سلسلہ چلتا رہا۔

عرب اور فلسطینی تجزیہ کار اس معاملے کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تاہم اسرائیل کے اندر کام کرنے والے یہودی تھنک ٹینکوں نے اس پر کما حقہ توجہ مرکوز رکھی۔ بیرونی دنیا میں معاہدہ اوسلو پر دسیوں ہزار مضامین اور کالم لکھے گئے جن میں اس معاہدے کی اسرائیل کے لیے اہمیت اجاگر کی جاتی رہی، تاہم اس موضوع پر خامہ فرسائی کرنے والے مغربی لکھاری معاہدہ اوسلو میں فلسطینیوں کا ذکر جان بوجھ کر گول کرتے دکھائی دیے۔

کم وبیش تمام اسرائیلی اور یہودی تجزیہ کاروں نے اس معاہدے کو ’غلطی‘ حتیٰ کہ ’ناگہانی آفت‘ قرار دیا جس نے ایک ’دہشت گرد تنظیم‘ کو مغربی کنارے کے مخصوص علاقوں پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا موقع فراہم کیا۔ ان کے بقول اس معاہدے سے اسرائیل اور اس میں بسنے والوں کی سلامتی پر حرف آیا۔

ایسے ان گنت تجزیہ کاروں نے یاسر عرفات اور تنظیم آزادی فلسطین پر جی بھر کے تبرا پڑھا۔ ان کی دانست میں اس معاہدے پر دستخط کے بعد سے ’فلسطینی دہشت گردوں‘ نے 1500 یہودی قتل کیے۔ وہ اسی مدت میں قتل، زخمی اور معذور ہونے والے فلسطینیوں کی اس سے کئی گنا بڑی تعداد بہت آسانی سے فراموش کر جاتے ہیں۔ یہ بزرجمہر اس مدت کے دوران فلسطینیوں کی چرائی گئی اراضی پر غیرقانونی طور پر تعمیر ہونے والی یہودی بستیوں کی تعداد کا ذکر کرنا بھی ’بھول‘ جاتے ہیں۔ 

فوجی طاقت کے بل پر فلسطینی اراضی پر اپنا ناجائز قبضہ برقرار رکھنے والے یقیناً بڑی آسانی سے اوسلو معاہدے کی ناکامی کا الزام فلسطینیوں کے سر تھونپ جاتے ہیں۔ یہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی ایک شرمناک کوشش ہے۔ 

اس میں دورائے نہیں کہ فلسطینی قیادت اہم مواقع پر برے فیصلے کرنے کے پوری طرح ذمہ دار ہے۔ امریکی انتظامیہ، یورپی یونین، بین الاقوامی اور عرب برادری، حتیٰ کہ فلسطینی قیادت سمیت غرض ہر کوئی الزام تراشی کے لیے آزاد ہے۔

اوسلو معاہدہ کی 30ویں ’برسی‘ کے موقع پر اس حقیقت کا اعتراف کر لینے میں ہی عافیت ہے کہ اوسلو ۔ ون اور ٹو میں کئی خامیاں پوشیدہ تھیں۔ کسی نے بھی ان معاہدوں کے ساتھ منسلک فنی تفصیل اور دوسرے ضمیہ جات پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ فلسطینی قیادت اور اسرائیل دونوں کی کمزور سیاسی خواہش دراصل جدید دور کے سب سے بڑے سیاسی چکمے (معاہدہ اوسلو) کی تخلیق کا باعث بنی۔

عین ممکن ہے کہ یاسر عرفات، اضحاک رابین اور شمعون پیریز دہائیوں سے مسائل کی شکار مقدس سرزمین کو امن کا گہوارا بنانے کی خواہش رکھتے ہوں، ان کے ذہن میں عظیم تر شرق اوسط میں بسنے والوں کی خوشحالی اور ترقی کا کوئی منصوبہ کار فرما ہو۔

صرف اچھی خواہش سے امن کا قیام ممکن نہیں ہوا کرتا۔ مذاکرات کی میز پر طے پانے والے ایسے معاہدات میں کیڑے نکالنے والوں کی تعداد ان کی خوبیاں بیان کرنے والوں سے کہیں زیادہ تھی۔

’خونخوار‘ جنگجو سے امن کے خوگر بننے والے اسرائیلی وزیر اعظم اضحاک رابین کو وائٹ ہاؤس میں اوسلو معاہدہ ۔ 1 پر دستخظ کے دو برس بعد ہی ایک اسرائیلی انتہا پسند نے گولیوں سے بھون ڈالا۔ اس قتل کے بعد قیام امن کا نوزائیدہ پودا زوال پذیر ہونا شروع ہو گیا۔

شمعون پیریز 1996 کے اہم الیکشن میں دائیں بازو کے ابھرتے ہوئے ستارے بنیامین نتن یاہو سے شکست فاش کھا گئے۔ اسی وقت اوسلو کا خاتمہ ہو گیا تھا، لیکن بہت سے لوگ یہ بات ماننے کو تیار نہ تھے۔

یہاں اس ظالمانہ اور تکلیف دہ حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ صہیونی منصوبہ چاہے دائیں بازو کی سیکولر حکومت کی نگرانی میں چلایا جائے اس کے انڈے بچے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی زمین پر زبردستی قبضے کی صورت میں ہی سامنے آئیں گے، اس کا منطقی نتیجہ ہمیشہ ہی حقیقی فلسطینی ریاست کا گلہ گھونٹنے کی صورت میں نکلا ہے۔

اوسلو معاہدہ کیسے رو بہ زوال ہوا؟ اس کا سبب جاننے کے لیے آپ کا کہنہ مشق سفارت کار ہونا ضروری نہیں! معاہدہ اوسلو کے دونوں فریق (اسرائیل اور پی ایل او) ایک دوسرے پر الزام تراشی کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ اس معاہدے کو روز اول سے ہی بداعتمادی اور شک کی عینک لگا کر دیکھا گیا۔ 

دوسری انتفاضہ، یاسر عرفات کا محاصرہ، غرب اردن میں فلسطینی اراضی پر ازسر نو یہودی آبادکاروں کا قبضہ، غزہ سے اسرائیلی انخلا، حزب اللہ فیکٹر، غزہ پر حماس کا کنڑول، فلسطینی اتھارٹی کی بے سمت پالیسیاں، کیمپ ڈیوڈ کا موقع ہاتھ سے نکل جانا، یہودی بستیاں اور بدلتی ہوئی علاقائی و سیاسی حقیقتیں سب ہی اوسلو کی منزل کھوٹی کرنے میں حصہ بقدر جثہ ڈالتی رہی ہیں۔

نتن یاہو نے اپنے اقتدار کا کِلّہ مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ یہی رٹ برقرار رکھی کہ معاہدہ اوسلو کی روشنی میں اس کے مدمقابل تو کوئی فلسطینی امن پارٹنر موجود نہیں، وہ کس سے بات کریں۔ نتن یاہو اوسلو معاہدے کا ناقد بن کر اس کی مذمت کرتا رہا، اس نے دو ریاستی حل کو دیوار سے دے مارا، جس نے قیام امن کی تمام راہیں مسدود کر دیں۔ 

نتن یاہو، المعروف بی بی، اب مکمل طور پر ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششیں کبھی امریکہ کے اشارہ ابرو کی محتاج ہوا کرتی تھیں۔ لیکن اب وائٹ ہاؤس کے کئی مکین اس ’بیمار‘ کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوششوں میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ اسرائیلی حکومتوں نے یہودی بستیوں کی تعمیر کا جو بگ ٹٹ سلسلہ شروع کیا، انکل سام اس کے سامنے ٹک ٹک دیدم ۔۔۔ دم نہ کشیدم کی عملی تفسیر بنے رہے۔ نتیجہ اب سب کچھ اب صفر جمع صفر بن چکا ہے۔

اسرائیل کی تاریخ میں نتن یاہو اس وقت دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی انتہائی انتہا پسند حکومت کے سربراہ ہیں۔ اسرائیل میں وہ اکیلے ہی منصوبہ اور فیصلہ ساز ہیں۔ اسرائیل کبھی فخریہ انداز میں سیکولر ریاست ہونے کا دعویٰ کیا کرتا تھا، جسے اب الٹرا قوم پسندوں اور انتہا پسند الٹرا مذہبی حلقوں نے ہائی جیک کر لیا ہے۔ تاریخی فلسطین کے کسی حصے میں ان انتہا پسندوں کو فلسطینیوں کا وجود ایک آنکھ نہیں بھاتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنی ناجائز تاسیس کی پون صدی گزرنے کے بعد اسرائیل اس تباہ کن صورت حال سے کیسے نبرد آزما ہو سکتا ہے؟ اس کا نتیجہ آنا ہنوز باقی ہے۔ تاہم اس پیش رفت کا فلسطینیوں کے مستقبل سے چنداں کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔

اوسلو مر چکا ہے!! 

اس بات کو فلسطینی قیادت تسلیم کرنے سے انکاری ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک نوشتہ دیوار ہے۔ کوئی اسے دیکھ کر آنکھیں موند کر دیکھنا اور پڑھنا نہ چاہے، تو اس کی مرضی۔ نئی حقیقت ماضی کے مسائل کے مقابلے میں اور بھی زیادہ گنجلک ہے۔ آج ریاست کی اصل روح تک رسائی کے لیے اسرائیل میں داخلی لڑائی جاری ہے۔

اندریں حالات بین الاقوامی کمیونٹی اسرائیل سے متعلق رائے قائم کرنے میں ایک مرتبہ پھر تقسیم کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ اس لیے صہیونی ریاست میں نسل پرستی کی جھلک نمایاں دکھائی دینے لگی ہے۔

فلسطینیوں کی چال پہلے ہی طرح بے ڈھنگی ہے۔ اس میں جانشینی کا ایک پرآشوب دور چل رہا ہے، جسے اگر حکمت سے ہینڈل نہ کیا گیا تو داخلی مخاصمت کا ’عفریت‘ فلسطینی اتھارٹی کا سر لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھے گا۔ 

اس سے زیادہ شرمناک حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نارملائزیشن کے نام پر اس وقت فلسطینی اراضی پر اسرائیلی دراندازی کی راہ ہموار کرنے میں ایک ایجنٹ کا کردار کر رہی ہے۔ تمام فلسطینی جماعتیں گدھ بن کر اپنے شکار کے گرنے کا انتظار کر رہی ہیں تاکہ وہ اس پر جھپٹ سکیں۔

اوسلو معاہدے کی ناکامی کے بعد عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو اب معمول لانے کا نیا ڈراما رچایا جا رہا ہے۔ ابراھم معاہدے پر دستخط کر کے عربوں نے اسرائیلی بائیکاٹ کے تیز دھار ہتھیار کو خود اپنے ہی ہاتھوں کند بنا لیا ہے۔ 

جیو پولیٹکل رجحانات فلسطین اور ان کے مبنی برحق قضیے کو بری طرح زک پہنچا رہے ہیں۔ معاہدہ اوسلو قصہ پارینہ بن چکا۔ یہ ہارس ٹریڈنگ کا ایک ایسا نمونہ بن چکا ہے کہ جس پر فلسطینی قیادت کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی امید لگائے بیٹھی ہے، خواہ وہ صحفہ قرطاس پر ہی کچھ ہو۔

کیا اوسلو معاہدہ ایک مہلک غلطی تھی؟ اسرائیلی اس کا جواب اثبات میں دیتے ہیں۔ صہیونی کارپردازوں نے سوچ سمجھ کر اس راہ پر چلنا چاہا، اسی لیے وہ اس تاریخی موقع کو ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتے تھے۔ 

اسرائیل نوازی میں لتھڑا ہوا معاہدہ اوسلو ایک لعنت اور بدنما داغ بن چکا ہے، کیونکہ اسے بنیاد بنا کر دو مخالف اور ایک دوسرے کے جانی دشمنوں کو قریب لانے کی کوششوں میں 30 برس گزر گئے ۔۔۔ اور اب نارملائزیشن کے نئے سرابوں کے پیچھے فلسطینیوں کی نہ جانے کتنی اور نسلوں کو اسرائیل کی توسیع پسندی کی بھینٹ چڑھایا جائے گا؟؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر