کندھ کوٹ میں ’گھر میں پڑا‘ راکٹ پھٹنے سے آٹھ اموات: پولیس

پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سندھ اور پنجاب کے کچے کے علاقوں کو اسلحے سے پاک اور جرائم کی آماجگاہ بننے سے روکنا ہوگا۔

ایس ایس پی ضلع کشمور راحیل کھوسو کے مطابق یہ واقعہ دریائے سندھ کے کچے کے گاؤں زنگی سبزوئی گوٹھ میں پیش آیا (امر گرڑو/ فائل)

سندھ کے ضلع کشمور کی پولیس کے مطابق کندھ کوٹ کے قریب کچے کے علاقے میں واقع ایک گاؤں میں بدھ کو راکٹ پھٹنے سے چار کم سن بچوں اور تین خواتین سمیت آٹھ افراد جان سے چلے گئے۔ 

سینیئر سپرنٹیڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ضلع کشمور راحیل کھوسو کے مطابق یہ واقعہ دریائے سندھ کے کچے کے گاؤں زنگی سبزوئی گوٹھ میں پیش آیا۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ایس ایس پی راحیل کھوسو نے بتایا: ’گاؤں زنگی سبزوئی گوٹھ میں دو قبائلی برادریوں کے درمیان گذشتہ کئی سالوں سے قبائلی لڑائی جاری ہے۔ 

’یہ راکٹ آر پی جی سیون تھا۔ جس کے بارے میں یہ سمجھا جا رہا ہے کہ پرانہ راکٹ تھا جو شاید مخالف برادری کی جانب سے داغا گیا ہوگا اور پھٹ نہ سکا۔ یہ راکٹ گھر کے قریب زمین میں دفن تھا، جو کھیل کے دوران بچوں کے ہاتھ آیا اور بچے راکٹ کو گھر لے گئے۔ گھر میں پتھر لگنے سے راکٹ دھماکے سے پھٹ گیا۔

’ہم اس واقعے کی تحقیق کر رہے ہیں کہ یہ راکٹ کہاں سے آیا اور کس نے داغا۔‘

راحیل کھوسو کے مطابق انہوں نے لاڑکانہ سے فرانزک ٹیم اور بم ڈسپول عملے کو طلب کیا ہے اور جلد پتہ لگایا جائے گا یہ راکٹ کس نے فائر کیا۔ 

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس واقعے کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے تو انہوں نے کہا: ’یہ واقعہ ایک گھنٹہ قبل پیش آیا ہے۔ اس لیے تاحال مقدمہ دائر نہیں ہوا ہے۔ تحقیقات کے بعد جلد مقدمہ دائر کیا جائے گا۔‘

علاقے میں ایک نجی چینل سے وابستہ رپورٹر رشید سومرو کے مطابق حادثے کے بعد لاشوں کو کندھ کوٹ ہسپتال لایا گیا، جہاں خواتین کا پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے خواتین ڈاکٹرز کی غیر موجودگی کے باعث ورثا نے احتجاج کیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سابق ایس ایس پی ضلع کشمور عرفان سموں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اس علاقے میں ساوند اور سبزوئی قبیلے کے درمیان ایک قتل کے بعد لڑائی چل رہی ہے۔

’اس دشمنی کے باعث گذشتہ کچھ عرصے میں دونوں قبائل کے سات افراد قتل ہو چکے ہیں۔‘  

اپریل 2023 میں اسی علاقے میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) سکھر کے شعبہ کمپیوٹر سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اجمل ساوند کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ 

ڈاکٹر اجمل ساوند نے 2015 میں فرانس کی یونیورسٹی جین مونٹ سینٹ ایٹین سے ای ہیلتھ مانیٹرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔

اجمل ساوند کے قتل پر سندھ بھر میں کئی ماہ تک احتجاج کیا گیا۔   

دریائے سندھ کے کچے سے منسلک اضلاع میں قبائلی لڑایاں عام ہیں۔ ان لڑائیوں کے دوران بھاری اسحلے بشمول راکٹ لانچرز کا استعمال بھی رپورٹ ہوا ہے۔ 

دوسری جانب گورنر سندھ کامران ٹسوری اور نگران وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے کندھ کوٹ میں راکٹ پھٹنے کے واقعے پر نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ سے واقعے کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔

صوبائی اور وفاقی حکومت کا ردعمل

نگران وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا کی جانب سے اعلامیے کے مطابق نگران وزیراعلیٰ نے پولیس سے رپورٹ طلب کی ہے۔

ان کے بقول رپورٹ میں یہ سوالات شامل تھے کہ یہ راکٹ گھر میں کہاں سے آیا؟ کیا کوئی اسلحے کی کھیپ کچے میں سمگل ہو رہی تھی؟ کیا گاؤں میں ڈکیتوں کے سہولت کار موجود ہیں؟ 

نگران وزیراعلیٰ سندھ نے بیان میں کہا کہ راکٹ کیسے پھٹا جس سے اتنا جانی نقصان ہوا اور اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ دی جائے۔ 

ترجمان گورنر ہاؤس سندھ سلیم خان کی جانب سے جاری بیان میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کندھ کوٹ میں گھر میں راکٹ پھٹنے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ اور کمشنر لاڑکانہ سے واقعے کی رپورٹ طلب  کرلی اور زخمیوں کو بہتر طبی سہولیات کی فراہمی کی ہدایت کی۔ 

بلاول ہاؤس سے جاری بیان میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ سندھ اور پنجاب کے کچے کے علاقوں کو اسلحے سے پاک اور جرائم کی آماجگاہ بننے سے روکنا ہوگا۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان