مسئلہ فلسطین کب اور کیسے شروع ہوا؟

جنوری 1915 میں لبرل پارٹی کے سیاست دان ہربرٹ سیموئل نے اپنا خفیہ میمو ’دی فیوچر آف فلسطین‘ تیار کیا، جسے کابینہ میں تقسیم کیا گیا، اس میں انہوں نے الحاق اور سلطنت برطانوی کی بتدریج سرپرستی میں ایک خودمختار یہودی ریاست بنانے کی حمایت کی۔

فلسطینی شہری عھد تمیمی (بائیں) اور ان کی والدہ نریمن (درمیان) مقبوضہ مغربی کنارے کے نبی صالح گاؤں کے قریب غیر قانونی آبادکاریوں کے خلاف اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے سامنے 5 فروری، 2015 کو احتجاج کرتے ہوئے (اے ایف پی)

اسرائیل کی جدید ریاست کا قیام مئی 1948 میں ہولوکاسٹ اور دوسری عالمی جنگ کے بعد عمل میں آیا تھا لیکن اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان جاری تنازع کی تاریخ اس سے بھی پہلے کی ہے۔

تاریخ کا یہ باب کب شروع ہوا، اس بارے میں مورخین اور مبصرین کی آرا مختلف ہیں۔

الجزیرہ پر اپنی سیریز النقبہ (2008) میں دستاویزی فلم ساز روان الضامن نے اپنی کہانی کا آغاز نپولین بوناپارٹ سے کیا، جس نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف اپنی جنگ کے دوران محاصرہ عکہ تناظر میں 1799 میں فلسطین میں یہودی وطن کی تجویز پیش کی تھی۔

فرانسیسی کمانڈر کو بالآخر شکست ہوئی لیکن مشرق وسطیٰ میں یورپی مضبوط گڑھ قائم کرنے کی اس کی کوشش کو 41 سال بعد برطانیہ نے دوبارہ دوہرایا جب وزیر خارجہ لارڈ پالمرسٹن نے استنبول میں اپنے سفیر کو خط لکھا، جس میں انہیں کہا گیا کہ وہ سلطان پر زور دیں کہ وہ مصر کے گورنر محمد علی کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے فلسطین کو یہودی تارکین وطن کے لیے کھول دے۔

اگرچہ اس وقت فلسطین میں صرف تین ہزار یہودی رہتے تھے لیکن فرانسیسی اشرافیہ بیرن ایڈمنڈ، جیمز ڈی روتھشیلڈ جیسے امیر لوگوں نے یورپ سے دیگر کو ان کے ساتھ شامل ہونے اور بستیاں قائم کرنے کے لیے سپانسر کرنا شروع کیا جن میں سب سے قابل ذکر (شہر) ريشون لتسيون ہے، جس کی بنیاد 1882 میں رکھی گئی تھی۔

آسٹریا کے مصنف نیتھن برن بام نے 1885 میں ’صیہونیت‘ کی اصطلاح اس وقت ایجاد کی جب یہودی، خاص طور پر مشرقی یورپ سے، فلسطین میں مسلسل آتے رہے۔

آسٹریا، ہنگری کے صحافی ڈاکٹر تھیوڈور ہرزل کی کتاب ’دی جیوش سٹیٹ‘ ایک دہائی بعد منظر عام پر آئی، جس میں 20 ویں صدی کی آمد کے ساتھ اس طرح کے (ملک) کے قیام کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ 
الجزیرہ کی سیریز النقبہ کے مطابق، ہرزل کے دوست میکس نورڈو کی طرف سے دو ربیوں کو اس امید کے امکانات کی جانچ پڑتال کے لیے فلسطین بھیجا جن کا جواب موصول ہوا کہ ’دلہن خوبصورت ہے لیکن اس کی شادی کسی اور مرد سے ہوئی ہے۔‘ حالانکہ اس جواب کی صداقت پر اختلاف ہے۔

برنبام، ہرزل اور نورڈو نے 1897 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں پہلی صیہونی کانگریس کا انعقاد کیا جس میں ایک آزاد یہودی ملک کے اپنے خواب اور اس کی تکمیل کے لیے یورپی طاقتوں کی لابنگ کرنے کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

1907 تک برطانیہ مشرق وسطیٰ میں اپنے غلبے کو مضبوط کرنے کے لیے ’بفرسٹیٹ‘ کی ضرورت پر غور کر رہا تھا۔ برطانوی صہیونی رہنما چائم ویزمین، جو ایک حیاتیاتی کیمیا دان تھے، نے اس وقت مقبوضہ بیت المقدس جا کر جافا کے قریب زمین خرید کر ایک کمپنی قائم بنائی۔ تین سال کے اندراندر شمالی فلسطین کے علاقے مرج بن عامر میں تقریبا 10 ہزاردونم زمین حاصل کی گئی، جو ایکڑ کے برابر زمین کی پیمائش ہے، جس کی وجہ سے 60 ہزار مقامی کسانوں کو یورپ اور یمن سے آنے والے یہودیوں کو مجبوراً جگہ دینی پڑی۔

چونکہ یہودی ملیشیا – ہشامر – بستیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی حفاظت کے لیے قائم کی گئی تھی، فلسطینی فارماسسٹ نجیب نصر نے الکارمل کے نام سے ایک اخبار نکالا، جس کا مقصد (فلسطینیوں کو) اس کے خلاف خبردار کرنا تھا جسے وہ نوآبادیاتی فورس سمجھتے تھے۔

پہلی عالمی جنگ کے آغاز سے برطانیہ ’مسلمانوں‘ پر عدم اعتماد کرنا شروع ہوا، یہ جواز تھا کہ وہ نہر سوئز پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے فلسطین میں اتحادی افواج کی موجودگی بڑھائے۔‘

جنوری 1915 میں لبرل پارٹی کے سیاست دان ہربرٹ سیموئل نے اپنا خفیہ میمو ’دی فیوچر آف فلسطین‘ تیار کیا، جسے کابینہ میں تقسیم کیا گیا اور جس میں انہوں نے الحاق اور سلطنت برطانوی کی بتدریج سرپرستی میں ایک خودمختار یہودی ریاست بنانے کی حمایت کی۔

سیموئل کی سفارشات پر سفارت کاروں سر مارک سائکس اور فرانسوا جارجس پیکوٹ نے اگلے سال نجی طور پر تبادلہ خیال کیا، جو سائکس پیکوٹ معاہدے کے معمار تھے جس نے عثمانی حکمرانی کے خاتمے کی صورت میں برطانوی اور فرانسیسی اثرورسوخ کی حد کا تعین کیا تھا۔

نو نومبر 1917 کو برطانوی حکومت کے اعلامیے کے بعد ڈیوڈ لائیڈ جارج، وزیر خارجہ آرتھر بالفور اور یہودی برادری کے رہنما والٹر روتھشائلڈ، دوسرے بیرن روتھشائلڈ کے مابین ایک خط میں فلسطین میں ’یہودیوں کے لیے قومی گھر‘ کے قیام کی باضابطہ طور پر حمایت کا اعلان کیا گیا۔

روتھشائلڈ، سیموئل، سائکس اور ویزمین نے ایک ماہ پہلے لندن میں ایک جشن کے اجتماع سے خطاب کیا تھا۔ جس کے بعد، 11 دسمبر 1917 کو، جنرل ایڈمنڈ ایلنبائی نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔

قیصر( شہنشاہ) کی شکست اور پہلی عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد، امریکی صدر ووڈرو ولسن نے زوال پذیر سلطنت عثمانیہ کے غیر ترک علاقوں کے بارے میں ماہر تعلیم ڈاکٹر ہنری کنگ اور دانشور چارلس کرین کی مدد سے ایک رپورٹ جاری کی جس میں پتہ چلا کہ فلسطین کی تقریباً 90 فیصد غیر یہودی آبادی صیہونی منصوبے کی ’پرزور مخالف‘ تھی۔

مصنفین نے احساس کی شدت کے بارے میں متنبہ کیا اور دلیل دی کہ امن کے وسیع تر مفاد میں یہودی امیگریشن کو محدود کیا جانا چاہیے لیکن بین الاقوامی برادری نے انہیں یکسر نظر انداز کردیا، ان کے نتائج 1922 تک دبا دیے گئے۔

1919 کی پیرس امن کانفرنس میں لیفٹیننٹ کرنل ٹی ای لارنس (جسے لارنس آف عربیہ کہا جاتا ہے) نے صیہونی وفد کے رہنما ویزمین اور ان کے عرب ہم منصب شہزادہ فیصل بن حسین کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط کے لیے ثالثی کی، جس میں اصولی طور پر فلسطین میں یہودی وطن اور مشرق وسطیٰ میں ایک آزاد عرب قوم کے قیام پر اتفاق کیا گیا تھا۔

1922  میں لیگ آف نیشنز نے سیموئیل کے دائرہ اختیار میں فلسطین پر حکومت کرنے کے برطانوی مینڈیٹ کو تسلیم کیا، جو اب ہائی کمشنر ہے۔

لیگ آف نیشنز نے فلسطین پر حکومت کرنے کے برطانوی مینڈیٹ کو سیموئیل کے دائرہ اختیار میں تسلیم کیا، جو اب ہائی کمشنر ہے، جس نے یہودیوں کی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے کم از کم 100 قانونی اقدامات کو نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کیا، ان (اقدامات) میں عبرانی کو سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کرنا اور ایک علیحدہ یہودی تعلیمی نظام اور یہودی فوج کی اجازت دینا شامل تھا۔ عبرانی یونیورسٹی اور ایک مزدور یونین ’ہستادروت‘ 1925 تک قائم تھے۔

دہائی گزرنے کے ساتھ ساتھ، یہودی امیگریشن کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو گئے کیونکہ فلسطینی تحریک نے سامراجی برطانیہ کی فوجی اور سفارتی طاقت کی پشت پناہی سے ہونے والے غاصبانہ قبضے کا مقابلہ کرنے اور اس کی مزاحمت کرنے کی ناکام کوشش کی۔

اگست 1929 میں جب بالفور نے مقبوضہ بیت المقدس کا دورہ کیا تو فلسطینیوں نے سیاہ جھنڈے لہرائے اور تقریباً 250 یہودی اور عرب دیوار براق (دیوار گریہ) پر ایک سانحے، میں جان سے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے، جو بغاوت براق کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سموئیل کے جانشین سر جان چانسلر نے تین مسلمان مردوں کو بدامنی میں حصہ لینے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔

لیکن یہ احتجاج جاری رہا اور 1933 میں شدت اختیار کر گیا، جب زیادہ سے زیادہ یہودی تارکین وطن (اسرائیل کو) اپنے لیے گھر بنانے کے لیے پہنچے، تو 1931 میں ان کی تعداد چار ہزار سے بڑھ کر 1935 میں 62 ہزار ہو گئی۔

اسی سال مسلمان انقلابی رہنما عزالدین القسام کو برطانوی فوجیوں نے جنین کے اوپر پہاڑیوں میں گولی مار دی گئی۔

1936 میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت کی مخالفت کی شدت کے نتیجے میں ایسے لوگوں پر بالفور اعلامیہ مسلط کیا گیا جنہوں نے اس کی مذمت کی اور اس کے نتیجے میں چھ ماہ تک عام ہڑتال کی گئی جو تنظیم کا ایک متاثر کن کارنامہ تھا جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کے گھروں کو تباہ کردیا گیا۔

1939 میں ایڈولف ہٹلر کے ’نازی جرمنی‘ کے خلاف بیشتر دنیا ایک بار پھر جنگ کا شکار ہو گئی، ہٹلر کے جرمنی کو 60 لاکھ یہودیوں کے قتل عام اور حراستی کیمپوں میں پھانسی دینے کی ذمہ دار قرار دیا گیا۔

اس تنازع میں امریکی شمولیت کے کچھ ہی عرصے بعد، امریکہ اور صیہونی تعلقات 1942 میں نیو یارک کے بلٹمور ہوٹل میں ہونے والی کانفرنس سے مضبوط ہو گئے۔ یہ واقعہ ایک مسلح صہیونی نیم فوجی دستے ارگن کی کئی سالوں کی سرگرمی کے پس منظر میں پیش آیا جو فلسطین میں مقامی عرب گروہوں پر حملے کر رہی تھی۔

ارگن 22 جولائی 1946 کو مقبوضہ بیت المقدس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل پر بمباری کے لیے بدنام ہے، جس میں 91 افراد مارے گئے، اور نو اپریل 1948 کو ’دیر یاسین قتل عام‘ ایک اور تنظیم، لیہی (یا سٹرن گینگ) کے تعاون سے کیا گیا، جس میں 107 افراد مارے گئے۔

اسی موسم گرما میں، لیہی نامی تنظیم سویڈش سفارت کار فوک برناڈوٹے کو قتل کر دیتی ہے، جنہیں اقوام متحدہ نے تنازع میں ثالثی کے لیے بھیجا تھا۔

1945 میں یورپ اور بحرالکاہل میں اتحادیوں کی فتوحات کے بعد، عالمی طاقتوں نے فلسطین میں تشدد کے خاتمے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کی۔

متنازع علاقے کا دو ریاستی حل تقریباً 1947 میں وجود میں آیا، جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے رضاکارانہ طور پر قرارداد 181 پیش کی، جس میں دریائے اردن کے مغرب میں فلسطین سے ایک نئی ریاست تشکیل دینے کی تجویز پیش کی گئی: ایک یہودیوں اور دوسری عربوں کے لیے۔

مبینہ طور پر امریکہ کے سفارتی دباؤ کے نتیجے میں ووٹنگ کے بعد منظور کی گئی یہ قرارداد فلسطینیوں نے مسترد کر دی، جنہوں نے دلیل دی کہ یہودی باشندوں کے پاس اس وقت 5.5 فیصد سے زیادہ زمین نہیں اور انہیں بین الاقوامی قانونی حیثیت کے علاوہ 56 فیصد حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہودیوں کی مسرت کو عرب دشمنی کا سامنا کرنا پڑا اور خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ 

14 مئی 1948 کو برطانوی مینڈیٹ ختم ہوتے ہی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون کی قیادت میں اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی، جس کو امریکہ اور سوویت یونین سے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔

لیکن خونی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ جس میں تین ہزار مزاحمتی جنگجو نئی قوم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور سات لاکھ فلسطینی عوام کو لڑائی سے بھاگ کر اردن، لبنان، شام، مغربی کنارے اور غزہ میں پناہ لینی پڑی۔

اس تاریخ کو فلسطینی عوام کی نقل مکانی، اب بھی ہر سال ’یوم نکبہ‘ کے طور پر منائی جاتی ہے، جسے عربی میں ’تباہی‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور جس دن فلسطینی تقاریر کرتے ہیں، ریلیاں نکالتے ہیں اور ان گھروں کی چابیاں لہراتے ہیں جنہیں وہ پیچھے چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے اور اب بھی واپسی کی امید رکھتے ہیں۔

دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 194 منظور کی جس میں تسلیم کیا گیا کہ فلسطینی عوام ’جو اپنے گھروں کو واپس جانا اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں انہیں جلد از جلد ایسا کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔‘

اسرائیل نے اس قرارداد کو نئی ریاست، خاص طور پر یہودی آبادی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

ایک سال بعد، چیمبر مشرق قریب میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) قائم کرتا ہے تاکہ بے گھر ہونے والوں کی مزید مدد کی جا سکے۔

ان دونوں واقعات کے درمیان اسرائیل نے لبنان، شام، اردن اور مصر میں اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔

اردن نے 1950 میں مغربی کنارے کا انتظامی کنٹرول سنبھال لیا اور مصر کا غزہ پر قبضہ رہا، یہ انتظام 1967 کی چھ روزہ جنگ تک جاری رہا جب اسرائیلی افواج نے ان علاقوں کو فتح کیا۔

اس سے پہلے، تشدد وقفے وقفے سے جاری رہا۔ 1956 میں قلقیلیہ، کفر قاسم اور خان یونس کے دیہاتوں اور 1966 میں السامو میں قابل ذکر قتل عام ہوا۔

فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی بنیاد 1964 میں قاہرہ میں رکھی گئی تھی جو حقوق کے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے مسلح انقلاب کے ذریعے ’فلسطین کی آزادی‘ کے لیے لڑنے کے لیے وقف ہے، ایک ایسا موقف جسے پی ایل او نے 1993 تک ترک نہیں کیا اور جسے اسرائیل اور امریکہ دونوں کی طرف سے دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا جاتا ہے۔ اسے 1974 میں عرب لیگ نے فلسطینی عوام کا واحد نمائندہ تسلیم کیا تھا۔

1967 میں غزہ کی پٹی، مغربی کنارے، گولان کی پہاڑیوں اور مصر پر اسرائیل کی فوجی پیش قدمی نے تازہ خونریزی کو جنم دیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 242 منظور کی جس میں اسے مقبوضہ علاقوں سے دستبردار ہونے کا حکم دیا گیا۔ اس کونسل کو نظر انداز کر دیا گیا۔

یوم کپور جنگ کے بعد سلامتی کونسل ایک اور قرارداد 338 منظور کرتی ہے جس میں جنگ بندی اور اسرائیل سے 1967 کی دراندازی سے پیچھے ہٹنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اسرائیل ایک بار پھر انکار کر دیتا ہے۔

30 مارچ 1976 کو زمین پر اسرائیلی قبضے کے بعد بحیرہ گلیل سے نیگیو تک کے قصبوں میں بغاوتوں، حملوں اور مزید پرتشدد انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا، جس تاریخ کو فلسطینی ’یوم زمین‘ کے طور پر مناتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے ایک واضح پیش رفت 17 ستمبر 1978 کو اس وقت ہوئی جب اسرائیلی وزیر اعظم میناچم بیگن نے مصری صدر انور سادات سے ملاقات کی اور صدر جمی کارٹر کے میری لینڈ ریٹریٹ میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کیے۔

فریم ورک معاہدوں میں سے ایک نے دونوں ممالک کے مابین ہم آہنگ تعلقات کو فروغ دیا اور دستخط کنندگان کو نوبل امن انعام دلایا لیکن دوسرے کی، متنازع علاقوں پر فلسطین کے مستقبل سے متعلق، فلسطینی وفد کی شمولیت کے بغیر اتفاق رائے کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے مذمت کی گئی۔

اسرائیل نے 1982 میں لبنان پر حملہ کیا جبکہ اس دہائی کے آخر میں فلسطینی علاقوں میں پہلی بغاوت (انتقاضہ) سے قبضے کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہو گئی۔

تاہم، امن کی طرف مزید پیش قدمی اس وقت ہوئی جب پی ایل او نے اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں 242 اور 338 کو قبول کیا۔ 1991 اور 1992 میں مذاکرات ایک بار پھر تعطل کا شکار ہوئے۔

اس کے بعد 1993 کے موسم گرما میں اسرائیلی وزیر اعظم یتزاک رابن اور پی ایل او کے چیئرمین یاسر عرفات نے اوسلو اول معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت فلسطینی عبوری خود مختاری، فلسطینی نیشنل اتھارٹی کے قیام اور ان علاقوں سے اسرائیلی دفاعی افواج کے انخلا کا اہتمام کیا گیا جو اب بھی کافی حد تک مقبوضہ تصور کیے جاتے ہیں۔

دوسرا معاہدہ اوسلو دوم 1995 میں ہوا جس کے تحت مغربی کنارے اور غزہ کے کچھ حصوں میں فلسطینیوں کو خود مختاری دی گئی لیکن اس میں ایک بار پھر ریاست کا درجہ نہیں دیا گیا۔

دوسری انتفاضہ تک جاری رہنے والی ایک غیر یقینی جنگ بندی کے نتیجے میں اسرائیل نے 2002 میں مغربی کنارے کے شہروں پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا، یہ غیر مستحکم کر دینے والا ایسا واقعہ تھا جس نے 2004 میں عرفات کی موت کے بعد حالات مزید بدتر کر دیئے، جو فلسطینی کاز کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس وقت سے تشدد میں اضافہ ہوا، اسرائیل نے 2006 میں لبنان میں حزب اللہ کے خلاف جنگ کا اعلان کیا اور غزہ میں حماس پر بار بار حملے کیے ، جن میں آپریشن کاسٹ لیڈ (2008)، آپریشن پلر آف ڈیفنس (2012) اور آپریشن پروٹیکٹو ایج (2014) شامل ہیں۔ 2017 اور 2018 میں یوم نکبہ کے موقع پر مزید تشدد ہوا، مؤخر الذکر اتنا شدید تھا کہ اقوام متحدہ کے جنگی جرائم کی تحقیقات کی جا سکیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد صورت حال مزید کشیدہ ہو گئی، سابق ریئلٹی ٹیلی ویژن سٹار (ٹرمپ) نے اسرائیلی وزیر اعظم بیامین نتن یاہو سے دوستی کی اور امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کر دیا۔

ٹرمپ نے یو این آر ڈبلیو اے کے لیے امریکی فنڈنگ میں بھی کٹوتی کی اور اپنے یہودی داماد جیرڈ کشنر کو مشرق وسطیٰ میں امن لانے کے لیے ایک منصوبہ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی، جس کے بارے میں جونیئر پراپرٹی ڈیولپر کو یقین تھا کہ وہ اس موضوع پر کم از کم 25 کتابیں پڑھنے کے بعد بغیر کسی تعصب کے یہ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

اس کے بعد یہ کشیدگی ایک بار پھر اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے گذشتہ ہفتے سرحد پار جنگجو بھیجے اور اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغے۔ اسرائیل نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ اس کا ملک ’جنگ میں‘ ہے اور اس کے جواب میں غزہ میں اہداف پر فائرنگ کی گئی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ