انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں ہفتے کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان آئی سی سی ورلڈ کپ 2023 کا میچ ہونے کی وجہ سے پورا شہر کرکٹ کے خمار میں ہے۔
احمد آباد ایک تاریخی اور خوبصورت شہر ہے جسے سلطان احمد شاہ نے 15ویں صدی میں سابرمتی ندی کے کنارے بسایا تھا۔
اسی ندی کے کنارے دنیا کا سب سے بڑا کرکٹ گراؤنڈ نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم ہے۔
مقامی عہدیداروں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ نریندر مودی سٹیڈیم تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار شائقین کی میزبانی کرے گا جس میں کچھ نشستیں ریمپ اور سٹیج کی وجہ سے ختم ہو گئی ہیں جو کھیل سے پہلے کے کنسرٹ کے لیے بنائے گئے ہیں۔
اس کے باوجود یہ تعداد دنیا بھر میں کسی بھی کرکٹ میچ کے لیے ایک ریکارڈ ہو سکتی ہے۔
سٹیڈیم کے آمنے سامنے بہت چہل پہل ہے۔ کرکٹ شائقین ہیں، پرنٹڈ ٹی شرٹ فروخت اور خریدے جا رہے ہیں۔ انڈین کرکٹ ٹیم کے مداح ہر طرف ہیں۔ تلاشِ بسیار کے بعد بھی کوئی پاکستانی مداح نہیں مل پائے، جس کی وجہ یہ ہے کہ انڈین حکومت پاکستانی صحافیوں اور شائقین کو ویزے نہیں دے رہی۔
بس شکاگو پلٹ بشیر چاچا اکلوتے پاکستانی مداح ہیں، جو سٹیڈیم کے باہر انڈین فینز کو ٹکّر دے رہے ہیں۔ وہ جیسے ہی پاکستانی ٹیم کے لیے نعرہ لگاتے ہیں، ویسے ہی انڈین مداحوں کے نعروں کا شور گونجنے لگتا ہے۔
بشیر چاچا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ امریکہ سے صرف پاکستان کی ٹیم کو سپورٹ کرنے کے لیے پہنچے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’اگر پاکستان جیتے گا تو وہ مٹھائی تقسیم کریں گے اور اگر انڈیا فتح یاب ہوتا ہے تو وہ اپنی انڈین بیوی کی جانب سے مٹھائی تقسیم کروائیں گے۔‘
انڈین صحافی بھی بڑی تعداد میں یہاں موجود ہیں۔ کئی صحافیوں سے گفتگو کے بعد اندازہ ہوا کہ ان میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ دونوں حریف ٹیموں کے لیے دونوں طرف سے مداح اور صحافیوں کو احمد آباد میں ہونا چاہیے۔
انڈین ٹی وی چینل ’آج تک‘ کی سٹار اینکر شویتا سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان میچ کے حق میں نہیں، تاہم اگر اس کے باوجود مقابلے ہوتے ہیں تو صحافیوں کو ویزا دیا جانا چاہیے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’بطور صحافی میں محسوس کرتی ہوں کہ پاکستانی صحافیوں کو کس طرح کی دشواریاں پیش آ رہی ہیں جو کہ نہیں ہونی چاہییں۔ میچ سے پہلے ہی انہیں ویزا ملنا چاہیے۔‘
احمد آباد میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ کے لیے گراؤنڈ اور آس پاس کی سڑکوں کو پوری طرح سجایا گیا ہے۔
میچ سے ایک رات قبل بھی یہ شہر روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ شہر میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور تقریباً سات ہزار پولیس اور حفاظتی اہلکار تعینات ہیں۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان دلچسپ مقابلے کی امید لے کر ہزاروں کی تعداد میں شائقین یہاں پہنچ چکے ہیں اور اس رپورٹ کو فائل کرنے تک یہ سلسلہ جاری تھا۔
ریلوے سٹیشن اور ایئرپورٹ پر عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ رش ہے۔ احمد آباد کے آبائی شہری بھی میچ کے لیے پرجوش ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کو حاصل معلومات کے مطابق شائقین کو میچ کے ٹکٹ کے حصول میں شدید دشواریاں پیش آئیں۔ ساتھ ہی ہوائی جہاز کے ٹکٹس اور ہوٹل کے کرائے بھی معمول سے بڑھ گئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تین ستارہ ہوٹل ’آشرہ اِن‘ کے جنرل مینیجر سبھاش راجپوت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میچ کی وجہ سے ہوٹل کے کرائے میں تھوڑا اضافہ ہوا ہے، جو فطری بات ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہوٹل پوری طرح بھرے ہوئے ہیں، تاہم کچھ کمرے خالی رکھے گئے ہیں تا کہ ایمرجنسی میں استعمال ہو سکیں۔‘
انہوں نے کہا کہ یہی حالات احمد آباد کے ہر ہوٹل کے ہوں گے۔
چونکہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے مداحوں کو انڈیا کی جانب سے ویزوں کا اجرا نہیں ہو سکا، اس لیے پاکستانی ٹیم کو مداحوں کے بغیر ہی مقابلے میں حصہ لینا ہو گا۔
ویسے امکانات ہیں کہ پاکستانی کھلاڑیوں کے انفرادی مداح سٹیڈیم میں موجود ہوں گے، جو پاکستان کے علاوہ دوسرے ملکوں سے انڈیا آئے ہوں، تاہم چوںکہ یہ گجرات ہے جو انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی ریاست ہے، اس لیے پاکستان کے لیے تالیاں بجانے والے یا اچھی کارکردگی پر جشن منانے والوں کی موجودگی کی توقعات کم ہیں۔