افغانستان: بےروزگار صحافی سے آن لائن کاروبار تک کی کہانی

ایک بےروزگار افغان صحافی کی کہانی جو اب طالبان دورے حکومت میں کپڑے کا کامیاب آن لائن کاروبار چلا رہے ہیں۔

افغان روایتی لباس کی مانگ بڑھی ہے (اسماعیل صادقی فیس بک 2023)

مشکل معاشی حالات میں جب آپ کی نوکری چلی جائے تو اپنے خاندان کی کفالت کیسے کریں؟

یہ وہ سوال تھا جو ایک صحافی نے اپنے آپ سے اس وقت پوچھا جب ان کے اخبار نے 2021 میں افغانستان کی معاشی بدحالی کے دوران انہیں ملازمت سے نکال دیا تھا۔

جواب نے خود صحافی کو بھی حیران کر دیا – انہوں نے ایک ایسے علاقے میں کاروبار شروع کیا جہاں وہ کپڑوں کے علاوہ کسی چیز کے متعلق کچھ نہیں جانتے تھے۔

انہوں نے جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا کاروبار کھڑا کیا جو نہ صرف ان کی بلکہ دیگر درجنوں افراد کی بھی مدد کرتا ہے۔

افغانستان اینلسٹس نیٹ ورک (اے اے این) کے سید اسد اللہ سادات نے اس سابق صحافی اسماعیل صادقی سے بات کی اور جاننا چاہا کہ انہوں نے کیسے فیس بک کے ذریعے دلکش روایتی افغان کپڑے فروخت کرنے کا اپنا آن لائن کاروبار شروع کیا۔ ان کی کہانی انہیں کی زبانی۔

’میں ایک مقامی اخبار میں بطور رپورٹر سماجی اور معاشی خبریں دیا کرتا تھا، لیکن جس اخبار کے لیے میں کام کرتا تھا، حکومت کے خاتمے کے بعد، اس میں سے ملازمین کو نکالا گیا کیونکہ اشتہار دہندگان کی طرف سے پیسے آنا کم ہوگئے تھے۔ اس طرح میری ملازمت چلی گئی۔

میرے پاس تھوڑی سی بچت تھی اور ہم نے سوچا کہ اگر اخراجات گھٹائیں، یہ جمع پونجی مجھے دوسری ملازمت ملنے تک چل جائے گی۔ لیکن میری طرح سب ایک ہی کشتی میں سوار تھے۔ بے روزگاری کی لکیر پر سینکڑوں صحافی ان ہی ملازمتوں کے لیے مقابلہ کر رہے تھے، جو بہت کم تھیں۔

جیسے جیسے میری جمع پونجی ختم ہوتی گئی، ہفتے مہینوں میں بدل گئے اور آخر کار مجھے یہ تسلیم کرنا پڑا کہ مجھے اپنے پیشے میں دوسری ملازمت نہیں ملے گی۔

مجھے اپنے خاندان کی کفالت، گھر، اپنے بچوں کی تعلیم اور اپنے والدین کے طبی اخراجات پورے کرنے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا تھا۔

میں نے دیگر ملازمتوں کی تلاش شروع کر دی، حتیٰ کہ ایک سال قبل ایک دن میری بیوی نے مجھے بتایا کہ ہماری ایک رشتہ دار کو، جو سلائی کا کام کرتی تھیں، اس کی مصنوعات کی مارکیٹنگ میں مدد کرنے کے لیے کسی کی تلاش ہے۔

اگلے دن، میں نے اپنی رشتے دار کو فون کیا اور ہم ان کے ساتھ اس خیال پر بات چیت کے لیے ان کے گھر گئے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ انہیں ہاتھ سے بنے روایتی کپڑوں کے بہت سارے آرڈر مل رہے ہیں۔

انہوں نے مجھے بتایا کہ سابق افغان حکومت کے دوران روایتی کپڑے پسند نہیں کیے جاتے تھے کیونکہ سستے درآمد شدہ کپڑے آسانی سے دستیاب تھے، لیکن اب انہیں دوبارہ پسند کیا جا رہا ہے۔

افغانستان کے ثقافتی ورثے کو زندہ رکھنا

روایتی افغان کپڑوں کی دوبارہ واپسی کا خیال مجھے پسند آیا۔ میرے اندر موجود آئیڈیلسٹ نے سوچا کہ کیسے یہ کاروبار ہمارے ثقافتی ورثے کے ایک حصے کو معدوم ہونے سے بچائے گا۔

میں نے اس وقت کے متعلق سوچا جب میں نے ایک صحافی کی حیثیت سے دست کاری کے بازاروں کی کوریج کی تھی۔ یہ باقاعدگی سے حکومت یا این جی اوز لگاتی تھیں جن کے پاس بیواؤں یا گھر کی خواتین سربراہوں کی مدد کرنے کے لیے پراجیکٹ ہوتے تھے۔

میں نے ملک بھر کے کاریگروں سے ان کے علاقے کے کپڑوں کی تفصیلات کے متعلق انٹرویو کر رکھے تھے۔ اس وقت، وہ مجھے بتاتے تھے کہ ہر پیس بنانے میں کتنا وقت لگتا تھا، اپنا کام منافع پر بیچنا کتنا مشکل تھا اور جب پراجیکٹس ختم ہو جاتے، تو ان کے پاس ان کا فروخت نہ ہونے والا سٹاک رہ جاتا اور کیسے انہیں گاہک تلاش کرنے میں مشکل ہوتی تھی۔

لہذا ہم نے روایتی افغان ملبوسات پر توجہ مرکوز کرنے پر اتفاق کیا، جیسا کہ افغانی (روایتی افغان شادی کا لباس) اور دیگر ہاتھ سے تیار کردہ ایسے افغان لوازمات جو ہم اپنے کاروباری پارٹنر کی چھوٹی سی گھریلو ورکشاپ میں بنا سکتے ہیں۔

ہمارے کچھ ہفتے اس بارے میں بات کرتے گزر گئے کہ ہمیں کس طرح آگے بڑھنا چاہیے۔ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ دکان کھول سکیں۔ ایک صحافی کی حیثیت سے میں جانتا تھا کہ نوجوان افغان سوشل میڈیا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں اور یہ کہ ای کامرس معیشت میں ایک ترقی کرتا ہوا شعبہ ہے اور فیس بک پیج بنانا مفت تھا۔ لہذا، ہم نے آن لائن فروخت پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس طرح میں نے روایتی افغان کپڑے فروخت کرنے والی ایک آن لائن دکان کھولی۔

افغانستان میں آن لائن کاروبار چلانا

شروع میں یہ مشکل تھا۔ ہمارے پاس کاروبار میں لگانے کے لیے زیادہ پیسے نہیں تھے اور میں کپڑوں، سلائی یا فروخت کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ لیکن میں اپنے خاندان کی مدد کا راستہ تلاش کرنے کے لیے بے چین تھا اور میرا کاروباری پارٹنر، درزی، اعلیٰ معیار کے کپڑے بنانے میں اچھی شہرت رکھتا تھا۔

ہم نے میری بچت کا کچھ حصہ، تقریباً 50 ہزار افغانی (550 امریکی ڈالر) کچھ نمونے بنانے کے لیے استعمال کیا اور میں نے تصاویر کے ذریعے اپنے کام کی نمائش شروع کی جو میں فیس بک پر پوسٹ اور اشتہار چلا کر کرتا تھا۔

آہستہ آہستہ آرڈر آنے لگے – صرف چند لوگوں کے جو میرے کاروباری پارٹنر کے کام کو جانتے تھے، اور ایسا وقت بھی آیا جب میں نے ہر چیز تقریباً چھوڑ دی تھی۔ لیکن میری بیوی اسی راستے پر رہنے کے لیے مجھ پر زور دیتی رہی اور مجھے خوشی ہے کہ میں نے ان کی بات سنی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہماری معیاری کاریگری کی شہرت میں اضافہ ہوا اور مزید آرڈر آنا شروع ہوگئے۔ آج کل، پورے افغانستان سے صارفین ہمارے فیس بک پیج کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں آرڈر دیتے ہیں۔

حتیٰ کہ ہمیں بیرون ملک سے بھی کچھ آرڈر ملے ہیں، لیکن افغانستان سے چیزوں کو بیرون ملک بھیجنا مشکل ہے۔ یہ ایک ایسی مارکیٹ ہے جسے ہم بڑھانا چاہتے ہیں، لیکن تمام بینکاری پابندیوں کے ہوتے ہوئے، افغانستان سے باہر تجارت کرنا ایک ناممکن خواب لگتا ہے۔

یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ کاروبار شروع کیے صرف ایک سال ہوا ہے۔ اتنے مختصر وقت میں، ہم نے ایک مضبوط کسٹمر بیس تیار کیا اور آرڈرز پورے کرنے کے لیے ہمیں مزید لوگوں کی خدمات حاصل کرنا پڑی ہیں۔

ہم نے اپنے آغاز سے لے کر اب تک 23 لوگوں کو ملازمت پر رکھا ہے، جن میں 16 خواتین بھی ہیں، جو گھر سے درزی اور کاریگر کے طور پر کام کرتی ہیں، جو موتیوں اور چمڑے کا کام کرتی ہیں۔

ہماری مصنوعات میں مختلف قسم کے افغان کپڑے اور لوازمات شامل ہیں، جو مشین اور ہاتھ سے بنائے گئے ہیں اور روایتی کڑھائی کی تکنیک جیساکہ گلاباتون (ریشم دھاگہ)، زرتار (سنہری دھاگہ) اور چرمہ دوزی (ڈبل گٹھ) شامل ہیں۔ ہم چمڑے کے کام میں بھی چلے گئے ہیں جیساکہ سینڈل اور پرس۔ ہماری سب سے مشہور اشیا میں کوچی طرز کے کپڑے، افغان شال اور ہاتھ سے بنے موتیوں والے پرس شامل ہیں۔

حتیٰ کہ ہمارے پاس ایک ڈیزائنر بھی ہے جو ہمارے گاہکوں کی مرضی کے مطابق کپڑے ڈیزائن کرتا ہے۔ ہمارے پاس خام مال کا ذخیرہ رکھنے کے لیے زیادہ پیسے نہیں ہیں، لہذا گاہک جب ڈیزائن پر راضی ہو جاتا ہے تو ہم بازار سے کپڑے اور دیگر سامان خریدتے ہیں اور انہیں درزی / کاریگروں میں سے ایک کے گھر پہنچاتے ہیں جو کپڑے بناتا ہے۔

ایک بار جب آئٹم بن جاتا ہے، ہم اسے کوریئر کے ذریعہ گاہک تک پہنچاتے ہیں اور وہ ہمیں کیش آن ڈیلوری ادائیگی کرتے ہیں۔

لیکن آن لائن فروخت جتنی بھی کامیاب ہو، لوگ اب بھی ایک ایسے کاروبار پر مشکل سے بھروسہ کرتے ہیں جس کی کوئی دکان یا کارخانہ نہ ہو۔

چنانچہ آٹھ ماہ قبل طالبان حکومت سے بزنس لائسنس لینے کے بعد ہم نے ایک چھوٹا سا سٹور فرنٹ کرائے پر لیا اور ایک شو روم کھولا۔ ایڈریس سے ہمیں مزید زیادہ قانونی حیثیت مل گئی ہے اور گاہکوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم اچھے پیسہ کما رہے ہیں۔

اخراجات کے بعد ماہانہ تقریباً 20 ہزار افغانی (230 امریکی ڈالر) کا منافع بھی ہوتا ہے۔ میں مشکل وقت کے لیے پیسے ایک طرف رکھ رہا ہوں، یا شاید ہم انہیں کاروباربڑھانے کے لیے استعمال کریں گے۔

لیکن سب سے زیادہ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ میرے اپنے اور میرے ساتھی کے خاندانوں کے علاوہ، ہمارا کاروبار ان 23 افراد کے خاندانوں کی مدد کرتا ہے جو ہمارے لیے کام کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک خاندان کے آٹھ یا دس افراد ہیں۔

خواتین کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا

افغانستان میں دستکاری زیادہ تر خواتین کرتی ہیں، جو اکثر سلائی، بنائی، موتی کا کام، کڑھائی اور دیگر روایتی دستکاریوں میں مہارت رکھتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ان کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بن سکتا ہے، خاص طور پر اس مشکل معاشی دور میں۔

مجھے خوشی ہے کہ میں خواتین کو روزگار فراہم کرنے میں کامیاب رہا ہوں۔ ان دنوں، بہت سی عورتیں گھر پر رہ رہی ہیں اور نوکری کی تلاش کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ اب ان میں سے کچھ کام کر رہے ہیں۔ میں نے اپنے پیسوں سے ان کے لیے سلائی مشینیں خریدی ہیں تاکہ وہ گھر پر کام کر سکیں۔ وہ گھر کا کام بھی کرسکتی ہیں اور سلائی بھی۔

اس طرح وہ اپنے خاندانوں کی مالی مدد کر سکتی ہیں۔ ان دنوں، بہت سی عورتیں اپنی روزی کمانے کی امید سے درزی اور کاریگر کی تربیت حاصل کر رہی ہیں۔ یہ مشہور ہوچکا ہے کہ میں اچھی سلائی کرنے والی خواتین کو کام دیتا ہوں اور مجھے کام کی متلاشی خواتین کی طرف سے روزانہ بہت سے فون آتے ہیں۔

مستقبل کی منصوبہ بندی

چونکہ ملکی معیشت مسلسل مشکلات کا شکار ہے، مجھے ڈر ہے کہ میرے کاروبار پر بھی مشکل وقت آئے گا۔ چونکہ لوگوں کی آمدن کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے، لہذا ضروریات زندگی جیسا کہ کھانے اور کرائے ادائیگی کو کپڑوں جیسی آسائشوں پر ترجیح دی جائے گی۔

مجھے امید ہے کہ حکومت مقامی طور پر مصنوعات بنانے والوں کی مدد کرے گی اور سستی درآمدشدہ مصنوعات کو مارکیٹ میں نہیں آنے دے گی۔ امارت ٹیکسٹائل کی صنعت کو سبسڈی دے سکتی ہے تاکہ کپڑا اور دیگر چیزیں جو ہم استعمال کرتے ہیں وہ افغانستان میں تیار کی جا سکیں۔ اس سے نہ صرف ہمیں درکار خام مال سستا ہوگا بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور معیشت میں پیسہ بھی آئے گا۔

اگر عورتیں گھر سے باہر کام کر سکیں اور اگر حکومت سبسڈی کے ساتھ میری مدد کرتی ہے تو میں ایک بڑی فیکٹری کھول سکتا ہوں تاکہ تمام خواتین ایک ہی چھت کے نیچے کام کرسکیں۔ ہم پیشہ ورانہ صنعتی مشینوں میں سرمایہ کاری کرسکتے ہیں اور خواتین سمیت مزید لوگوں کو ملازمت دے سکتے ہیں۔ ان چیزوں سے ہمارا کام آسان، تیز اور زیادہ منافع بخش ہو جائے گا۔

ہمیں خام مال کی فراہمی اور تیار مصنوعات لینے کے لیے سارا دن لوگوں کے گھر جانے کے لیے کورئیر کی ادائیگی نہیں کرنی پڑے گی، جو کہ وقت طلب اور مہنگا ہے۔

آن لائن فروخت میں زبردست صلاحیت ہے۔ اس سے جغرافیائی حدود ختم ہو جاتی ہیں اور دنیا بھر میں تجارت کرنا ممکن ہو جاتا ہے، جیساکہ چین میں فیشن ویب سائٹس ہیں۔

میں جانتا ہوں کہ افغانستان میں کاروبار اس وقت عالمی سطح پر تجارت نہیں کر سکتے، لیکن مجھے امید ہے کہ افغانستان کسی دن عالمی معیشت میں دوبارہ شامل ہو سکتا ہے۔ جب وہ دن آئے گا، تو میرا ارادہ ہے کہ افغانستان سے دنیا بھر کے گاہکوں کو کپڑے فروخت کرنے والا افغان کپڑوں کا پہلا آن لائن سٹور کھولوں۔‘

بشکریہ: افغانستان اینلسٹس نیٹ ورک

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی