نیوزی لینڈ مساجد حملہ تحقیقات: کیا جانیں بچائی جاسکتی تھیں؟

ڈپٹی چیف کورونر برگیٹ ونڈلی نے تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں گے کہ وہ اس ظلم سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔

چند متاثرہ خاندانوں کی وکیل فاطمہ علی 24 اکتوبر 2023 کو کرائسٹ چرچ میں 2019 کے قتل عام کی تحقیقات کے آغاز کے موقعے پر کارروائی کا مشاہدہ کر رہی ہیں (آئن میک گریگر/ اے ایف پی)

نیوزی لینڈ میں 2019 میں مساجد میں ہونے والے قتل عام کی تحقیقات کا آغاز منگل کو ہوگیا ہے، جس میں جان سے جانے والے 51 افراد کے رشتہ دار امید کر رہے ہیں کہ کیا انہیں اس سوال کا جواب ملے گا کہ آیا اس واقعے میں کسی کی جان بچائی جا سکتی تھی۔

15 مارچ 2019 کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں سفید فام برینٹن ٹیرنٹ نے فائرنگ کر کے 51 مسلمانوں کو قتل کر دیا تھا۔

ڈپٹی چیف کورونر برگیٹ ونڈلی نے منگل کو کرائسٹ چرچ میں تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں گے کہ ’ہم اس ظلم سے کیا سیکھ سکتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بات کریں گے، جنہوں نے زندہ لوگوں کے تحفظ کی کوشش میں اپنی جانیں گنوائیں۔‘

کچھ متاثرین کے رشتہ داروں کی نمائندگی کرنے والے ’15 مارچ وہانو ٹرسٹ‘ کی ترجمان مہا گلال نے کہا کہ ’جوابات کی فوری ضرورت‘ ہے۔

تحقیقات شروع ہونے سے قبل ایک بیان میں مہا گلال نے کہا: ’ہماری سب سے بڑی تشویش سچائی کو سمجھنا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ متاثرین کے اہل خانہ ’سمجھنے کی کوشش میں متحد ہیں اور اس بات کی وضاحت چاہتے ہیں کہ آیا ان کے پیارے زندہ رہ سکتے تھے یا نہیں۔‘

بقول مہا گلال: ’سچائی کی یہ تلاش شفایابی اور واقعے کی یادوں کو ختم کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔‘

تحقیقات کے افتتاحی سیشن میں ایک ویڈیو بھی شامل تھی، جس میں 51 کو ان کے غمزدہ خاندانوں کی جانب سے خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

تحقیقات میں حملے کے آغاز سے لے کر حملہ آور ٹیرنٹ کے باضابطہ پولیس انٹرویو تک کے تمام واقعات کا جائزہ لیا جائے گا، جس میں پولیس اور ایمرجنسی سروسز کے رسپانس ٹائم بھی شامل ہیں۔

مہا گلال نے کہا: ’ایک مرکزی تفتیش اس بات کے گرد گھومتی ہے کہ ہمارے پیاروں کو کچھ وقت کے لیے بغیر کسی فوری کارروائی کے مسجد میں کیوں چھوڑ دیا گیا اور پولیس نے ہمیں یا کسی اور کو انہیں باہر نکالنے کی اجازت نہیں دی۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہم کورونر کے عمل اور اپنی قانونی نمائندگی پر اعتماد کرتے ہیں تاکہ ان اہم سوالات کو حل کیا جا سکے اور ضروری بصیرت فراہم کی جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جن دیگر سوالات کے جواب تلاش کرنے ہیں، ان میں کیا کسی نے ٹیرنٹ کی مدد کی؟ کیا ایک مختلف طبی ردعمل زندگیاں بچا سکتا تھا؟ اور کیا حملے کے دن ایک مسجد میں ہنگامی طور پر باہر نکلنے کا دروازہ کیوں نہیں کھل سکا تھا؟ شامل ہیں۔‘

’نفرت کی بنیاد‘

نیو ساؤتھ ویلز کے دیہی قصبے گرافٹن سے تعلق رکھنے والے آسٹریلیا کے سابق جم انسٹرکٹر ٹیرنٹ کی جانب سے کیے گئے 51 قتل کے اس واقعے نے نیوزی لینڈ کو خوف زدہ کر دیا تھا اور دنیا بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔

قتل کے 51 الزامات، اقدام قتل کے 40 اور دہشت گردی کے ایک الزام کا اعتراف کرنے کے بعد انہیں اگست 2020 میں بغیر پیرول کے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

جج کیمرون مینڈر نے سزا سناتے ہوئے کہا تھا کہ ٹیرنٹ کے ’من گھڑت‘ نظریے اور ’بنیادی نفرت‘ نے انہیں بے سہارا مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے پر مجبور کیا۔

ٹیرنٹ نے ان اموات کو سوشل میڈیا پر براہ راست نشر کیا تھا اور حملوں سے قبل ایک منشور آن لائن شائع کیا تھا۔

اس کے بعد اس وقت کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے فوری طور پر اسلحے کے قوانین کو سخت کرنے کا فیصلہ کیا اور آن لائن انتہا پسندی کو روکنے کے لیے سوشل میڈیا کی بڑی کمپنیوں پر دباؤ ڈالا۔

مہا گلال کا کہنا ہے کہ متاثرین کے اہل خانہ کو امید ہے کہ تحقیقات سے مستقبل میں اس طرح کے حملوں کو روکنے کے طریقوں پر غور ہوگا۔

’ہمیں یقین ہے کہ 15 مارچ 2019 کو جو کچھ ہوا، اس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں تاکہ اگر اس طرح کا سانحہ دوبارہ پیش آتا ہے تو ہم ایک برادری کے طور پر تیار رہیں، ہم دعا کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا