پاکستان: ای کامرس پلیٹ فارم سے منشیات کی سمگلنگ کیسے ہوئی؟

اینٹی نارکوٹکس فورس نے حال ہی میں ایک ایسے گروہ کا پتہ لگا کر 11 ملزمان کو گرفتار کیا ہے، جو ای کامرس کی آڑ میں منشیات کی آن لائن سمگلنگ میں ملوث تھے، لیکن یہ کام ہوتا کیسے ہے؟

کسٹم حکام سات جنوری 2022 کو پشاور میں پکڑی گئی ہیروئن کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں (عبدالمجید/ اے ایف پی)

اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) نے حال ہی میں ایک ایسے گروہ کا پتہ لگا کر 11 ملزمان کو گرفتار کیا ہے، جو ای کامرس کی آڑ میں منشیات کی آن لائن سمگلنگ میں ملوث تھے۔ اس حوالے سے مزید کارروائی بھی جاری ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اسی سلسلے میں اے این ایف کے ترجمان سے رابطہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ سمگلنگ کا یہ کام کیسے ہوتا ہے اور اس میں کون کون ملوث ہے؟

ترجمان اے این ایف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فورس میں ایک مخصوص شعبہ ہے، جسے سپیشل انویسٹی گیشن سیل (ایس آئی سی) کہا جاتا ہے اور اسی شعبے سے ہمیں معلومات ملی تھیں کہ منشیات کی آن لائن سمگلنگ کا کام کیا جا رہا ہے۔

’ہمیں معلوم ہوا کہ یہ پورا سیٹ اپ ایک معروف ای کامرس پلیٹ فارم کے ذریعے کیا جا رہا ہے، جہاں دیگر کئی مصنوعات کے برانڈز بھی رجسٹرڈ ہیں۔ ہم نے اس ای کامرس پلیٹ فارم کے اندر اپنا ایک ذریعہ (سورس) بنایا اور اس کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ کس دن منشیات یہاں سے جانی ہیں۔‘

اے این ایف ترجمان نے منشیات کی نقل و حمل کے حوالے سے بتایا: ’مثال کے طور پر میں نے ایک کام شروع کیا ہے کہ میں بچوں کے کھلونے بنا کر بیچنا چاہتا ہوں۔ میں اس ای کامرس کمپنی میں خود کو رجسٹر کروں گا کہ یہ میری چیز ہے اور میں جتنے پیسے کماؤں گا، اس میں سے 10، 20 یا 30 فیصد کمیشن میں اس ای کامرس پلیٹ فارم کو دے دوں گا۔ مجھے پیسے اسی پلیٹ فارم کے ذریعے ملیں گے، اب چاہے وہ بینک کے ذریعے ملیں یا وہ ہاتھ میں پکڑا دیں۔

’میں ایک پروڈیوسر (مصنوعات بنانے یا پیش کرنے والا) ہوں گا، درمیان میں ای کامرس کمپنی ہے، جو ڈیلیوری کا کام کر رہی ہے، انہوں نے مجھے سہولت دی ہے کہ وہ میری مصنوعات کو اپنے پلیٹ فارم پر ڈسپلے کر رہے ہیں۔ میں آگے لوگوں کو بتا دوں گا کہ آپ نے اس ای کامرس کی ویب سائٹ پر جا کر فلاں چیز آرڈر کرنی ہے تو آپ کو منشیات مل جائیں گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا کہ عموماً بڑی کوریئر کمپنیاں آپ کے دیے گئے پتے پر آپ کی منگوائی ہوئی چیز چھوڑ کر جاتی ہیں۔

’اس کیس میں ڈیلیوری گھر کے باہر یا کسی ویئر ہاؤس میں ہوتی ہے، پھر وہ کسی اور ویئر ہاؤس میں جاتی ہیں، جہاں سے منشیات کے ڈیلرز تک پہنچتی ہیں اور وہاں سے ڈسٹری بیوٹر اور پھر آگے لوگوں تک۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اے این ایف نے دراصل ایک مربوط گروہ کے خلاف کارروائی کی ہے۔ یہ گروہ ای کامرس پلیٹ فارم پر کمپنیاں رجسٹرڈ کر کے ملک بھر میں منشیات کی سمگلنگ کر رہا تھا۔

ترجمان کے مطابق اے این ایف نے اس ای کامرس پلیٹ فارم کے سارے ریکارڈ کو بھی قبضے میں لیا اور دیکھا کہ کسی ایک کمپنی کے نام پر اگر ترسیل کے لیے بک کیا گیا سامان یا کنسائنمنٹ گئی ہے تو پہلے ایسی کنسائنمنٹ کتنی بار گئی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ اس سے پہلے بھی کئی بار ایسی کنسائنمنٹس جا چکی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ جب ایسے کیس کو عدالت میں لے جانا ہوتا ہے تو ہمیں چیزیں برآمد کرنی پڑتی ہیں، ہمیں لینے والے (Receiver) اور بھیجنے والے (Sender) دونوں کو گرفتار کرنا ہوتا ہے۔

اے این ایف ترجمان کے مطابق بنیادی طور پر جو نام نہاد کمپنی تھی، یہ ایک ہی گروپ میں چار پانچ لوگوں نے رجسٹر کروا رکھی تھی اور وہ آن لائن منشیات لیتے تھے۔

’ظاہر ہے کہ انہوں نے ڈیلرز کو آف دا ریکارڈ بتایا ہوگا کہ یہ چار پانچ ویب سائٹس ہیں۔ یہاں آپ فلاں چیز مانگیں گے تو آپ کو چرس مل جائے گی یا کوئی اور منشیات۔

’درمیان میں ایک کوریئر سروس آجاتی ہے، جس کا کام ٹرانسپورٹ کرنا تھا۔ اس میں سے بھی ہم نے کچھ لوگ پکڑے ہیں، اسی طرح جنہوں نے منشیات حاصل کرنی تھیں، وہ بھی پکڑے گئے۔‘

ترجمان اے این ایف نے مزید بتایا کہ اس بات کا تعین کرنا فی الوقت مشکل ہوگا کہ منشیات سمگلنگ کا یہ کام کتنے عرصے سے ہو رہا ہے،کیونکہ ابھی اس کیس کی تحقیقات جاری ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس کارروائی میں 11 ملزمان گرفتار کیے گئے ہیں جبکہ اس گروہ کی جانب سے آٹھ مختلف شہروں میں منشیات کی سمگلنگ کے سراغ ملے ہیں، جن میں پشاور، راولپنڈی، اسلام آباد، سیلاکوٹ، گجرانوالا، سرگودھا، لاہور اور کراچی شامل ہیں۔ 

ترجمان کے مطابق اس گروہ سے منشیات کے 36 پارسل قبضے میں لیے گئے، جو انہوں نے ڈیلیور کرنے تھے۔ ’ان پارسلوں میں سے 53.7 کلو چرس، 1.6 کلو آئس اور 1.2 کلو افیون برآمد کی گئی ہے۔‘

اے این ایف ترجمان نے مزید بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق متعلقہ گروہ کا نیٹ ورک ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے، جس میں ایک بڑے ای کامرس پلیٹ فارم کے کچھ ملازمین بھی شامل ہیں۔

’ای کامرس پلیٹ فارم کے لوگ یقیناً اس کام میں ملوث ہیں کیونکہ کچھ منشیات کی بدبو آتی ہے اور جو شخص بھی وہاں سامان کو ڈیل کر رہا ہے، وہ اس بدبو سے اتنا تو چیک کرے گا کہ اس کے اندر کوئی ایسی ویسی چیز تو موجود نہیں، جسے چیک نہیں کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح ڈیلیوری سروس والوں نے بھی اس بات کو نظر انداز کیا۔ ’اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ جب کوئی پارسل ویئر ہاؤس سے نکل کر کوریئر کمپنی تک جاتا ہے تو اس کی مکمل سکریننگ ہو اور دیکھا جائے کہ اس پارسل کے اندر کوئی کیمیکل، منشیات یا بارود وغیرہ کے ذرات تو نہیں لگے ہوئے لیکن اس کیس میں ایسا نہیں کیا گیا۔‘

ترجمان کے مطابق اکثر لوگ کاغذ پر ہیروئین لگا دیتے ہیں، جسے سکیننگ کے بغیر معلوم کرنا مشکل ہے۔ دوسرا منشیات میں اگر حشیش شامل ہے تو اس کی بدبو ہوتی ہے اور اس کا وزن بھی ہوتا ہے، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اگر کوریئر کمپنی میں پارسل کی چیکنگ ہوتی بھی ہے تو وہاں سے بھی کوئی شخص اس منشیات کے سیٹ اپ کے ساتھ ملا ہوا ہے اور وہ پارسل لینے کے بعد ڈیلیور کرتے ہیں اور اپنے پیسے کما لیتے ہیں۔‘

ترجمان کے مطابق: ’ویسے تو ہم لوگ منشیات کی سمگلنگ پکڑتے رہتے ہیں جو باہر کے ملکوں سے آتی ہیں لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے کہ آن لائن وہ بھی پاکستان کے اندر اس طرح سے اندھا دھند سمگل ہونے والی منشیات پکڑی گئی ہیں، ایسا ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘

اس سارے معاملے کے حوالے سے پنجاب میں انسداد منشیات مہم کے کنسلٹنٹ اور ڈرگ ایڈوائزری ٹریننگ ہب کے ڈائریکٹر سید ذوالفقار حسین کہتے ہیں کہ ’منشیات کی ٹریفکنگ کے نئے نئے طریقے ایجاد ہو چکے ہیں، جس میں پہلے نمبر پر وٹس ایپ گروپس آتے ہیں، جو نوجوانوں نے ڈیلرزکے ساتھ مل کر بنائے ہوئے ہیں۔ ڈیلرز ان وٹس ایپ گروپوں کو ہینڈل کرتے ہیں اور انہوں نے آگے منشیات فروخت کرنے والے یا ڈسٹری بیوٹرز رکھے ہوئے ہیں۔‘

بقول سید ذوالفقار حسین: ’ڈیلر وٹس اپ پر میسج کرتا ہے کہ ’مال آگیا ہے‘ اور جگہ بتا دیتا ہے۔ ڈسٹری بیوٹر اس جگہ سے منشیات حاصل کر لیتا ہے اور آگے بیچ دیتا ہے اور وہاں سے وہ سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں یا دیگر لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں۔

’دوسرا بڑا طریقہ آن لائن فوڈ ڈیلیوری سروسز ہیں، جن میں پزا، برگر، کافی، چائے ڈیلیور کرنے والے گھروں کے اندر تک منشیات پہنچاتے ہیں۔ بچے رات گئے ڈیلیوری سروس کو فون کرتے ہیں اور ڈیلیوری کے بہانے انہیں منشیات گھر بیٹھے مل جاتی ہیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’ایسا نہیں کہ یہ ڈیلیوری کسی کو بھی ہو جائے گی بلکہ ان کے بھی گروپس بنے ہوئے ہیں، ڈیلیوری صرف اسی کو ہوگی جو اس گروپ میں شامل ہے اور وہ پہلے سے ان سے منشیات لے رہا ہے۔‘

سید ذوالفقارحسین کا کہنا تھا کہ اس کام میں بڑی فوڈ چینز شامل نہیں ہیں بلکہ چھوٹی چینز والے شامل ہیں، جو پکڑے بھی جاتے ہیں۔ وہ کاروبار تو کھانے کا کر رہے ہوتے ہیں لیکن اس کی آڑ میں منشیات کا دھندا کر رہے ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ لوگ منشیات لینے کے لیے جس جگہ ڈیلر موجود ہو، وہاں اس کے پاس خود جاتے ہیں۔ یہ ڈیلرز پوش علاقوں میں بھی رہتے ہیں اور غریب علاقوں میں بھی۔ ان علاقوں میں ارد گرد کے لوگوں کو یہ علم نہیں ہوتا کہ یہاں کوئی منشیات کا ڈیلر رہتا ہے۔

’اس ڈیلر نے اپنے کام کے لیے صبح فجر کے فوراً بعد یا مغرب کے بعد کا وقت مقرر کر رکھا ہوتا ہے، جس کے دوران لوگ اس کے پاس جاتے ہیں اور اپنی مرضی کی منشیات خرید لیتے ہیں۔‘

سید ذوالفقارحسین کے مطابق چوتھا طریقہ یہ ہے کہ لاہور کے 120 مقامات پر سات سے آٹھ ہزار منشیات کے عادی افراد بیٹھے ہیں، انہیں وہیں منشیات فراہم کی جاتی ہیں۔

جبکہ پانچواں طریقہ یہ ہے کہ آں لائن بائیک سروس والوں کو بھی اس کام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انہیں آرڈر دیا جاتا ہے کہ فلاں دکان سے سگریٹ کی ڈبیاں لانی ہیں اور دکان دار ایک لفافہ دے گا، وہ بھی لانا ہے۔ 

اس کیس میں آن لائن بائیک والا اگر انکار کرے تو اسے پیسوں کا لالچ دیا جاتا ہے اور ڈیلیوری کرنے پر اسے اتنی ٹپ دی جاتی ہے کہ جو شاید وہ اپنے چھ چکروں میں بھی نہ کما سکے۔

سید ذوالفقار حسین نے ڈرگ ایڈوائزری ٹریننگ ہب اور یوتھ کونسل فار اینٹی نارکوٹکس کی جنوری سے مارچ 2023 کی رپورٹ بھی انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ شیئر کی۔

اس رپورٹ کے مطابق لاہور شہر میں 120 ایسے مقامات ہیں، جہاں منشیات کے عادی بے گھر افراد پائے جاتے ہیں اور وہ ہلکی سے لے کر سخت ترین منشیات کا نشہ کرتے ہیں۔

ان میں حساس ترین علاقوں میں داتا دربار، نولکھا سٹیشن، گوالمنڈی، لکشمی چوک، مسلم ٹاؤن، کینال روڈ، لاری اڈا، چوبرجی، دھرم پورہ اور بھاٹی گیٹ شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق رواں سال کے پہلے تین مہینوں میں 128 نامعلوم منشیات کے عادی بے گھر افراد کی موت واقع ہوئی، جس کی بڑی وجہ منشیات کی زیادہ مقدارکے علاوہ بھوک، پیاس اور حفظان صحت کے اصولوں کی غیر موجودگی تھی۔

اس رپورٹ میں منشیات کو اے اور بی کیٹیگری میں تقسیم کیا گیا ہے، جو لاہور کے کچھ مخصوص علاقوں سے مخصوص طریقوں اور افراد سے با آسانی حاصل کی جاسکتی ہیں۔

اے کیٹیگری کی منشیات کو ’ہارڈ ڈرگز‘ کہا جاتا ہے، جس میں ہیروئن، کوکین، چرس، ایل ایس ڈی گولیاں، کرسٹل آئس، ایکسٹیسی گولیاں اور کچھ ٹیکے شامل ہیں۔

بی کیٹیگری میں شامل منشیات میں شراب، افیون، گٹکا، کینبیز، پان، سگریٹ، نسوار، نشہ آور گولیاں یا سیرپ، سولوینٹس، درد ختم کرنے والی گولیاں اور دیگر کیمیکلز شامل ہیں۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مارکیٹ میں کون سی منشیات کا ایک یونٹ کس قیمت پر دستیاب ہے۔

رپورٹ کے مطابق کوکین فی یونٹ 22000 روپے، ہیروئین فی یونٹ 500 سے 800 روپے، کرسٹل آئس 1300 روپے سے 2000 روپے، بھنگ 80 روپے سے 100 روپے جبکہ پاکستانی شراب کی ایک بوتل 200 روپے سے 1000 روپے جبکہ امپورٹڈ شراب کی ایک بوتل 2500 روپے سے 4000 روپے میں دستیاب ہے۔

سید ذوالفقار حسین کا کہنا تھا کہ منشیات کی آن لائن سمگلنگ میں کوئی بڑے برانڈز براہ راست ملوث نہیں ہوتے، دوسرا کوریئر کمپنیوں کو اے این ایف چیک کرتا رہتا ہے، لیکن پھر بھی یہ کام نہیں رکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ان کمپنیوں کی آڑ میں یہ کام کرتے ہیں۔ 

کیا ای کامرس کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی اتھارٹی موجود ہے؟

اس سوال کے جواب میں ترجمان اے این ایف کا کہنا تھا کہ فی الحال آن لائن شاپنگ کو کوئی ریگولیٹ کرتا دکھائی نہیں دے رہا۔ حکام کو اسے دیکھنا ہو گا کیونکہ اس کی آڑ میں منشیات سے بھی خطرناک چیزیں سمگل ہو سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ ای کامرس میں کام کرنے والی کمپنیوں کو اپنے اندرونی معاملات پر از سرنو نظر ڈال کر اپنے  نظام کو مزید بہتر کرنا چاہیے تاکہ ان کی سروسز، سمگلنگ اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ کی جا سکیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی