غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو آرٹ کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش

نمائش کی منتظم اور مصورہ شاہینہ رشید کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ایک ایسی جگہ بنائی ہے، جس سے یہ تاثرملتا ہے کہ اس وقت غزہ میں صورت حال کیا ہے اور وہاں جنگ کے نتیجے میں کیا ہو رہا ہے۔‘

پاکستانی کے ساحلی شہر گوادر میں گوادر ایجوکیشنل اینڈ انوائرمٹل ویلفیئر سوسائٹی کے %زیر اہتمام 31 اکتوبر 2023 کو غزہ کی صورت حال پر منعقد کی جانے والی نمائش میں لوگ فن پاروں کا معائنہ کر رہے ہیں (شاہینہ رشید)

بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادر میں منگل کو ایک آرٹ نمائش میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور وہاں کی صورت حال سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

نمائش میں ایک طرف ٹوٹے ہوئے پتھر پڑے تھے جو ظاہر کرتے ہیں کہ اس جگہ پر کبھی کوئی مکان تھا، جو اب صرف ملبے کا ڈھیر ہے جبکہ اس کے پتھروں پر رکھی تصاویر یہ ظاہرکرتی ہیں کہ یہ کون رہتا تھا جس میں خواتین بچے بھی شامل ہیں۔

گوادر ایجوکیشنل اینڈ انوائرمٹل ویلفیئر سوسائٹی (جیوز گوادر) کے زیر اہتمام ایک پانچ روزہ مصوری کے فن پاروں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے جو یکم نومبر تک جاری رہے گی۔

اس میں 23 مصور حصہ لے رہے ہیں، جن میں 14 لڑکیاں بھی شامل ہیں جبکہ پانچ جونیئر اور 15 سینیئر مصور بھی شامل ہیں۔

نمائش کی آرگنائزر اور مصورہ شاہینہ رشید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گوادرمیں پہلی دفعہ ایسی نمائش کا اہتمام کیا گیا، جس میں انسٹالیشن کے ذریعے ہم نےایک واقعہ یا علاقے کی صورت حال کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔’

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہم نے ایک ایسی جگہ بنائی ہے، جس سے یہ تاثرملتا ہے کہ اس وقت غزہ میں صورت حال کیا ہے اوروہاں جنگ کے نتیجے میں کیا ہو رہا ہے، یہ ملبے کا ڈھیر ہے اوراس کے اوپر ہم نے تصاویر رکھی ہیں، جو یہ بتانے کی کوشش ہے کہ اس علاقے میں کچھ بھی باقی نہیں رہا۔‘وہ بتاتی ہیں کہ ’پتھروں پرتصاویران بچوں اور خواتین کی رکھی ہیں، جو اس بمباری کے باعث جان سے گئے ہیں، لوگ اس نمائش میں بہت دلچپسی لے رہے ہیں، کیوں کہ اس وقت سب لوگوں کو غزہ کی صورت حال پر تشویش ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شاہینہ رشید کے بقول: ’ہم نے اس نمائش اور انسٹالیشن کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ بہ حیثیت مسلمان اور انسان غزہ میں جو ظلم ہو رہا ہے اس پر کسی طرح بات کی جائے، اس لیے ہمارے پاس آرٹ ہی وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے ہم لوگوں تک پیغام پہنچا سکتے ہیں، تاکہ حکومت ان مظلوموں کے لیے کچھ کرے۔‘

نمائش میں شامل فاطمہ اختر کی خطاطی یہاں رکھی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اسلامی خطاطی پر کام کرنا چاہتی ہیں۔ ’میں لوگوں کو اپنےآرٹ کے ذریعےقرآن سے جوڑنا چاہتی ہوں۔‘

فاطمہ اخترنے انڈپینڈںٹ اردوکو بتایا کہ ’میں چاہتی ہوں کہ جب کوئی میرے کیلی گرافی کودیکھے تووہ اپنے رب سے قریب ہوجائے، اس کی مایوسی کم ہوسکے۔‘

ایک اور مصورہ آمنہ علی بخش کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈیڑھ سال سے ڈٰیجیٹل آرٹ پر کام کرنا شروع کیا ہے۔

آمنہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ڈٰیجیٹل آرٹ کو اس نے پہلے سوشل میڈیاپر دیکھا اور پھر کچھ تحقیق کرکے جو لوازمات سافٹ ویئر اور ایپس کی ضرورت تھی وہ تلاش کیے، اس کے بعد خود سے یہ کام شروع کیا۔‘

نمائش کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر گوادر اورنگزیب بادینی  نے جیوز کے زیراہتمام اس پانچ روزہ آرٹ ایگزبیشن کو سراہا اور اس کو معاشرے کے لیے ایک برتر کام سے تعبیر کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’جس طرح نشاۃ ثانیہ کی تحریک میں آرٹسٹوں نے مِحرک کردارادا کیا، جس کے سبب یورپ کو ڈارک ایج سے نکلنے میں کامیابی ہوئی،اور آج جیوز گوادر کے اس پلیٹ فارم کو دیکھ کر وہ تاریخ پھر سے میری نظروں کے سامنے دکھائی دے رہی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن