فیض آباد کیس: سپریم کورٹ نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی مسترد کر دی 

عدالت نے آئندہ سماعت پندرہ نومبر تک ملتوی کر دی جس میں اٹارنی جنرل انکوائری کمیشن تشکیل کیے جانے کے حوالے سے تفصیلات اور ٹی او آرز بتائیں گے۔ 

28 اکتوبر 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا بیرونی منظر (فاروق نعیم/ اے ایف پی)

فیض آباد دھرنا عمل درآمد کیس میں آج سپریم کورٹ نے حکومتی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی مسترد کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو جلد نیا انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ ’اٹارنی جنرل کے مطابق کمیشن آف انکوائری تشکیل دیا جائے گا، توقع ہے کمیشن تمام نظرثانی درخواستیں دائر کرنے کے حسن اتفاق کی بھی تحقیقات کرے گا، یہ تحقیقات بھی ہونے کی توقع ہے کہ کیا تمام نظرثانی درخواستیں دائر کرنے کی ہدایات ایک ہی جگہ سے آئی تھیں؟‘

عدالت نے آئندہ سماعت پندرہ نومبر تک ملتوی کر دی جس میں اٹارنی جنرل انکوائری کمیشن تشکیل کیے جانے کے حوالے سے تفصیلات اور ٹی او آرز بتائیں گے۔ 

عدالت نے نو میں سے آٹھ نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دیں جبکہ درخواست گزار شیخ رشید کے لیے کہا کہ ’ان کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنی درخواست کی پیروی کریں اور انہیں نوٹس جاری کر دیا، جبکہ ایم کیو ایم کی نظرثانی درخواست بھی واپس لینے پر خارج کر دی۔

ہمارے لوگ ملک اور دین دونوں کو بدنام کررہے ہیں: چیف جسٹس پاکستان

فیض آباد دھرنا کیس عمل درآمد کیس کی تقریباً چھ گھنٹے طویل سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ’پاکستان میں کوئی نہیں پوچھتا چاہے جو کچھ کرو، کبھی دبئی چلے جاؤ کبھی دوسرے ملک، ہمارے لوگ ملک اور دین دونوں کو بدنام کررہے ہیں، یہاں کوئی بھی شخص اٹھ کر راستے بند کردیتا ہے اورملک کو نقصان پہنچا کر باہر چلا جاتا ہے۔‘

بدھ کے روز سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی دوسری سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔ آج کی سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل، الیکشن کمیشن سمیت سیاسی جماعتوں کے وکلا کی مختلف مواقع پر سرزنش کی۔ 

آج کا تفصیلی حکم نامہ:

چیف جسٹس نے حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا کہ 'تحریک لبیک نے کوئی نظرثانی درخواست دائر نہیں کی، تحریک لبیک کو فیض آباد دھرنا فیصلہ درست لگا ہو گا، انفرادی درخواست گزاروں کو ہم نہیں سنیں گے، تمام متعلقہ درخواست گزاروں کو ہم نے سن لیا ہے، ابصار عالم نے کچھ شخصیات پر الزامات عائد کیے، اگر حکومت اس معاملے کمیشن قائم کرتی ہے تو تمام الزامات کمیشن کے سامنے رکھے جائیں۔‘

’ابصار عالم نے کہا کہ وہ انکوائری کمیشن کے سامنے سارا بیان کھل کر دیں گے۔ اٹارنی جنرل نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل بارے بتایا، اٹارنی جنرل کے مطابق فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا نوٹیفکیشن تاحال جاری نہیں کیا گیا، کمیٹی نے تحقیقات کیسے کرنی ہیں اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا، اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن کی تشکیل سے متعلق مہلت طلب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کمیشن تشکیل دے کر عدالتی فیصلے پر مکمل عملدرآمد ہو گا۔ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سنجیدہ نہیں لیا، آئی بی،وزارت دفاع اور پیمرا نے نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی ہے وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن نے بھی نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی ہے۔‘

عدالت نے مزید لکھوایا کہ ’چیئرمین پیمرا سلیم بیگ سے پوچھا گیا کہ نظرثانی کی درخواست کیوں دائر کی؟‘

’چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے متضاد بیانات دیے، چیئرمین پیمرا کی توجہ پیمرا قانون کے سیکشن پانچ کی جانب دلائی گئی، چیئرمین پیمرا سے پوچھا گیا انہوں نے نظرثانی درخواست کیوں دائر کی، چیئرمین پیمرا نے عدالت کو گمراہ کرنے اور معلومات چھپانے کی کوشش کی، ایسا لگتا ہے چیئرمین پیمرا کسی اور کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح استعمال ہوئے۔‘

سپریم کورٹ نے اعجاز الحق کی حد تک نظرثانی درخواست نمٹاتے ہوئے کہا کہ ’اعجاز الحق نے آئی ایس آئی رپورٹ میں ذکر ہونے پر نظرثانی درخواست دائر کی، اعجاز الحق پر دھرنے کی حمایت کرنے سے متعلق فیصلہ اس کے خلاف استعمال نہیں ہو گا۔ اعجاز الحق نے بیان حلفی دیا ہے جس پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔‘

عدالت نے لکھوایا کہ ’الیکشن کمیشن نے بھی نظرثانی واپس لینے کی استدعا کی ہے، الیکشن کمیشن نےقانون کو کاسمیٹک قرار دینے پر افسوس کا اظہار کیا ہے، الیکشن کمیشن نے کیونکہ یہ لفظ خود استعمال کیا تھا اس لیے فیصلے سے حذف کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن نے فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے رپورٹ پیش کی، الیکشن کمشن رپورٹ کے مطابق سکروٹنی کمیٹی کو ٹی ایل پی نے مطلوبہ معلومات فراہم نہیں کیں، لگتا ہے الیکشن کمیشن نے سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لیے بغیر تسلیم کر لی، الیکشن کمیشن نے ٹی ایل پی کے معاملے کا آئین اور قانون کے مطابق جائزہ لینے کا وقت مانگا گیا، الیکشن کمیشن کی ایک ماہ کا وقت دینے کی استدعا منظور کر لی گئی۔‘

آج کی عدالتی کارروائی:

سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ ’پہلے گزشتہ سماعت کا حکمنامہ دیکھ لیں۔‘ اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھ دیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا ابصار عالم یہاں ہیں؟ ابصار عالم نے وزرات دفاع کے ملازمین پر سنجیدہ الزام لگائے ہیں کیا اب بھی آپ نظرثانی درخواستیں واپس لینا چاہتے ہیں؟ اگر ابصار عالم کے الزامات درست ہیں تو یہ معاملہ وزرات دفاع سے متعلق ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’ہمیں بتایا گیا ابصار عالم راستے میں ہیں۔ ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جا چُکی ہے  کمیٹی 19 اکتوبر کو قائم کی گئی جس کا پہلا اجلاس 26 اکتوبر کو ہوا ہے۔ کمیٹی اپنی رپورٹ وزارت دفاع کو پیش کرے گی وہاں سے رپورٹ پھر سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی جائے گی۔‘

چیف جسٹس نے یہ سن کر کہا کہ ’اس ساری مشق سے اصل چیز مسنگ ہے، یہ سب ایک آئی واش ہے، سب لوگ نظرثانی واپس لے رہے ہیں تو یہ کمیٹی ٹی او آرز آنکھوں میں دھول کے مترادف ہے۔ کمیٹی ٹی او آرز کے ذریعے ہی تمام لوگوں کو بری کر دیا گیا ہے، معذرت کے ساتھ لیکن یہ کمیٹی قابل قبول نہیں ہے، عدالت اس فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی سے خوش نہیں ہے، حکومت کی بنائی گئی کمیٹی غیرقانونی ہے، اس فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے سامنے کوئی پیش نہیں ہو گا۔‘ 

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’حکومت اس معاملے کو ہینڈل کرنے کے اہل ہی نہیں ہے۔ عدالتی فیصلے پر آج تک عمل کیوں نہیں کیا گیا، ایک صاحب باہر سے امپورٹ ہوتے ہیں اور پورا مُلک مفلوج کر دیتے ہیں۔ کیا عدالتی فیصلے کے بعد ملک آئین پر چل رہا ہے؟ کیا حکومت نے کینیڈین حکومت سے رابطہ کیا تھا؟ کیا لوگ کینیڈا سے یہاں آکر دھرنے دیں کوئی نہیں پوچھے گا؟کیا پاکستانی کینیڈا جا کر اس طرح دھرنے دے سکتے ہیں؟ دوسرے ممالک تو اپنے ایک ایک شہری کی حفاظت کرتے ہیں۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ گارنٹی دے سکتے ہیں کہ آج ملک آئین کے مطابق چل رہا ہے؟ 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’دھرنا اچانک نہیں ہوا، منیج کون کررہا تھا اور ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ کمیٹی رپورٹ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے؟ آپ نے ٹی او آرز اتنے وسیع کر دیے کہ ہر کوئی بری ہو جائے گا، اربوں روپے کا نقصان ہوا مگر سرکار کو کوئی پرواہ نہیں، ٹی او آرز میں کہاں لکھا ہے کہ کون سے مخصوص واقعہ کی انکوائری کرنی ہے، ہمارا کام حکم کرنا ہے آپ کا کام اس پر عمل کرانا ہے۔‘

اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ’پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن تشکیل دیں گے، جیسے عدالت حکم کرے گی اس پر عمل ہو گا۔‘ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’آئین پر عملدرآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے، حکومتی کمیشن کی تحقیقات شفاف ہونی چاہئیں۔ سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں تاریخی فیصلہ دیا، جب تک آئین وقانون پرعملدرآمد نہیں ہوگا لوگوں کی تکالیف ختم نہیں ہوں گی۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ماضی سے سیکھ کرحکومت ایسا اقدام کرے کہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں، جب قانون ہاتھ میں لینے والوں کو سزا ملے گی تو لوگ سبق لیں گے؟ کیا حکومت واقعی فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پرعمل کرنا چاہتی ہے؟ کون سا قانون کہتا ہے کہ نظرثانی دائر ہو جائے تو فیصلے پرعمل نہیں ہو گا؟ اس وقت کی حکومت تھی اچھی یا بری مگر موجودہ حکومت اب کیا کر رہی ہے؟ کسی کو اس ملک کی پرواہ نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ کمیٹی تحقیقات سے یہ بھی تعین ہوجائے کہ پیمرا اورالیکشن کمیشن اس وقت آزاد نہیں تھے۔ حکومت بتادے تو ہم کیس بند کردیتے ہیں، ہم پھر انتظار کرتے ہیں کہ فیض آباد کی طرح ایک اور سانحہ ہو، کیا ہمیں باہرکے دشمن سے خطرہ ہے یا اندرونی خطرات ہیں؟‘

 وقفے کے بعد جب سماعت دوبارہ شروع ہوئی چیف جسٹس نے کہا کہ پیمرا میں لوگ کام نہیں کرتے، سپریم کورٹ میں آ کر کام کا بتاتے ہیں، فیصلے کے خلاف پہلے نو نظرثانی درخواستیں آئیں پھرسب نےاچانک واپس لے لیں، کیا نظرثانی دائر کرکے واپس لینا مذاق ہے؟

اسی اثنا میں سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم اور موجودہ چیئرمین پیمرا سلیم بیگ کمرہ عدالت پہنچ گئے۔ ابصار عالم فیض آباد دھرنے کے وقت چیئرمین پیمرا تھے۔ چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے سوال کیا کہ ’نظرثانی درخواست کس کے کہنے پر دائر کی تھی؟ ہم نے آپ کے ہاتھ مضبوط کرنے ہیں، ان کے خلاف کھڑے ہوں جو مداخلت کر رہے ہیں، اگر نظرثانی دائر کرنے کا فیصلہ آپ کا اپنا تھا تو فائل پر نوٹنگ دکھائیں۔‘ چیئرمین پیمرا نے عدالت کو بتایا کہ ’نظرثانی دائر کرنے کا فیصلہ میرا اپنا تھا، نظرثانی دائر کرنا ہماری غلطی تھی۔‘ چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود ڈی جی لا پیمرا سے سوال کیا کہ ’کیا آپ کو معلوم ہے نظرثانی کس کے کہنے پر دائر ہوئی؟‘

ڈی جی لا پیمرا نے جواب دیا کہ ’پیمرا اتھارٹی کا کوئی تحریری فیصلہ موجود نہیں کہ نظرثانی دائر کی جائے گی۔‘

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’پیمرا قانون کے مطابق بورڈ کے فیصلے تحریری ہوں گے زبانی نہیں، کیا چیئرمین پیمرا نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے؟ چیئرمین پیمرا کو علم ہی نہیں کہ نظرثانی کیسے دائر ہوئی تھی، نظرثانی درخواست پر دستخط صرف چیئرمین پیمرا کے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نظرثانی دائر کرنے کا فیصلہ چیئرمین کا اپنا تھا۔‘ 

چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین صاحب آپ سے تین حکومتیں بہت خوش تھیں، کس سے ڈرتے ہیں؟ تو چیئرمین پیمرا نے جواب دیا کہ ’اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا۔‘ اس کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’آپ پر کوئی دباؤ نہیں تھا لیکن اب قانون کا دباؤ ہوگا۔ آرڈر لکھوانے سے پہلے پھر پوچھ رہے ہیں کس نے حکم دیا تھا، عدالتیں اس لیے نہیں ہوتیں کہ ان کے ساتھ کھیل کھیلا جائے۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’ابصار عالم نے پریس کانفرنس کی اور وزیراعظم کو خط لکھ کر بھی حقائق بتائے، حیرت ہے اس وقت کے وزیراعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف نے کچھ نہیں کیا، کرسی سے اترنے کے بعد ہر وزیراعظم کہتا ہے میں مجبور تھا، اس معاملے کی بہت سنگین انکوائری ہونی چاہیے۔‘

ابصار عالم کے ساتھ چیف جسٹس کا مکالمہ:

اس کے بعد عدالت نے سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کو روسٹم پر بلا لیا اور پوچھا کہ ’آپ نے وزیراعظم کو آٹھ مئی 2017 کو خط لکھا کہ میڈیا سے کچھ عناصر دھمکیاں دے رہے ہیں، میڈیا کے اندر کے عناصر کا وزیراعظم کیا کریں؟ ایسا ہی خط چیف جسٹس اور آرمی چیف کو بھی لکھا گیا تھا۔‘

ابصار عالم نے عدالت کو بتایا کہ خط میں درخواست کی تھی کہ حساس اداروں سے تفتیش کرائیں تاکہ ایسے عناصر اور سپورٹرز کے خلاف کارروائی ہو، کیبل آپریٹرز کے پاس حساس اداروں کے لوگ جاتے تھے۔ لیکن وزیراعظم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے ابصار عالم سے کہا کہ ’خط میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگر آپ وزیراعظم ہوتے تو کیا کرتے؟ وزیراعظم کیا کر سکتا تھا، آپ چیئرمین ہیں خود کارروائی کرتے، وزیراعظم پولیس افسر تو نہیں جو مقدمہ درج کرتا یا کارروائی کرتا۔‘

ابصار عالم نے عدالت کو بتایا کہ ’میرے خلاف تین درخواستیں دائر ہوئیں اور ایک منظور ہوگئی، فیض آباد دھرنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ سے میری تعیناتی غیرقانونی قرار دی گئی۔‘ چیف جسٹس جواباً کہا کہ فیصلہ پڑھے بغیر کیسے کہہ دیں کہ درست تھا یا دباؤ کا نتیجہ؟ عدالتی فیصلہ آپ نے ریکارڈ کا حصہ بنایا ہی نہیں، عدالت نے تو آپ کو نہیں بلایا تھا خود آئے ہیں، آپ عدالتوں پر انگلی اٹھائیں گے تو ریکارڈ سامنے لانا ہو گا۔‘

اس کے بعد ابصار عالم نے عدالت میں بتایا کہ ’سابق میجر جنرل فیض حمید اور ان کے عملے نے نجم سیٹھی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا، نجم سیٹھی نے جیو پر پروگرام کیا تھا، میں نے پروگرام بند کرنے سے انکار کر دیا، جنرل فیض نے حسین حقانی کے میڈیا بلیک آؤٹ کا بھی کہا جو میں نہیں مانا۔‘ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو ہٹانے کی یہی وجہ تھی؟ تو ابصار عالم نے جواب دیا کہ ’میں ان کی جیب میں نہیں تھا اس لیے مجھے ہٹایا گیا۔ جنرل فیض اور ان کے عملے نے تین بار کال کرکے کہا 92 نیوز کو کھولو یا سب کو بند کر دو۔‘

چیف جسٹس نے یہ سن کر کہا کہ ’کسی کی پیٹھ پیچھے بیان نہیں ہوتا، اگر حکومت کمیشن بنائے تو آپ وہاں پیش ہوں گے؟ جن پر الزام ہے ان کا بھی موقف لیا جائے گا اور شاید جرح بھی ہو۔‘ سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے کہا کہ ’کلمہ پڑھ کر کہہ رہا ہوں پیش ہو کر بیان دوں گا۔ جرح اور بیان دینے کے لیے تیار ہوں۔ منیر احمد نامی شخص کے حوالے سے سنا کہ وہ ایجنسیوں کا بندہ ہے، اس کے بعد مزید کسی تحقیق کی گنجائش نہیں تھی، میرے خلاف درخواستیں فیض آباد دھرنے سے پہلے ہی دائر ہوچکی تھیں، ڈان اور جیو کے لیک آؤٹ پر پیمرا نے کارروائی کی تھی، میری تعیناتی کے دوران ڈان اور جیو اپنی پوزیشن پر بحال ہوگئے تھے۔‘ اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’ابصار عالم کے الزامات ہی کافی تھے کہ انکوائری کرائی جاتی۔‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’وہ کیوں چاہتے تھے کہ 92 نیوز بند نہ ہو؟‘ تو ابصار عالم نے جواب دیا کہ ’چینل 92 نیوز پرتشدد اور نفرت انگیز مواد نشر کر رہا تھا۔‘

چیف جسٹس نے پھر پوچھا کہ ’آپ کہنا چاہتے ہیں فوج کا افسر چاہتا تھا کہ پرتشدد کارروائی ہو؟‘ ابصار عالم نے عدالت کے سامنے کہا کہ ’روتے ہوئے دل کے ساتھ کہہ رہا ہوں بظاہر ایسا ہی لگتا ہے۔ تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں پیمرا کو وزارت اطلاعات یا ایجنسیوں نے کہا ہو گا۔ مجھے علم نہیں کہ زبانی حکم اگر کسی نے دیا تھا تو کون ہوسکتا ہے، مارچ 2019 میں نظرثانی دائر ہوئی، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید تھے۔‘

آج کی سماعت میں مزید کیا ہوا؟

پی ٹی آئی نے ایک مرتبہ پھر نظرثانی درخواست واپس لینے کی استدعا کر دی۔ معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’علی ظفر سینیٹ اجلاس کے لیے اسلام آباد آ رہے ہیں، اپنے بیان پر قائم ہیں، اٹارنی جنرل نے پی ٹی آئی کی درخواست واپس لینے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔‘ 

جبکہ شیخ رشید کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ پیش ہوئے اور انہوں نے شیخ رشید نے نظرثانی درخواست واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ’شیخ رشید رابطے میں نہیں ہیں اللہ جانتا ہے وہ کہاں ہیں۔‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’شیخ رشید سے رابطہ نہیں تو درخواست واپس لینے کا کس نے کہا ہے؟ کیا یہ کوئی جعلی درخواست ہے؟ اسے واپس لیں یا شیخ رشید سے رابطے کا کہیں۔‘

ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے عدالت سے کہا کہ ’عدالت پھر شیخ رشید کو خود بلا لے۔‘ تو چیف جسٹس نے برہمی سے کہا کہ ’آپ کو کام نہیں آتا تو ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کا لائسنس منسوخ کر دیتے ہیں۔‘

اٹارنی جنرل نے عدالت سے درخواست کی کہ ’ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کو شیخ رشید سے رابطے کا موقع دیں۔‘ چیف جسٹس نے پوچھا کہ شیخ رشید جیل میں یا کہیں اور؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’شیخ رشید جیل میں نہیں وہ میڈیا پر آ رہے ہیں۔‘ جس کے بعد سپریم کورٹ نے نظرثانی درخواست واپس لینے کے معاملے پر شیخ رشید کو نوٹس جاری کر دیا۔ 

ضیا الحق کو صدر پاکستان کہنے پر چیف جسٹس برہم

سابق رکن اسمبلی اعجاز الحق کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’اعجاز الحق نے عدالتی فیصلے میں حساس ادارے کی رپورٹ کی تردید کر دی ہے۔ بیان حلفی کے مطابق مظاہرین کی کوئی حمایت نہیں کی تھی، اعجاز الحق اور مظاہرین کے درمیان گٹھ جوڑ کی کوشش جھوٹ پر مبنی ہے، اعجاز الحق نظرثانی کے بجائے اپنی ریپوٹیشن خراب کرنے پر دادرسی چاہتے ہیں، آئی ایس آئی نے اعجاز الحق کا نام غلط طور پر شامل کیا۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’اعجاز الحق کے والد سابق آرمی چیف تھے۔‘ ان کے وکیل نے کہا کہ ’اعجاز الحق کے والد صدر پاکستان بھی تھے۔‘ اس بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ضیاالحق کو سابق صدر نہیں مانتا، عدالت میں ایسی غلط بیانی دوبارہ نہیں کرنا۔ آئین کے تحت صدر پانچ سال کے لیے ہی ہوسکتا ہے، بندوق کی زور پر کوئی صدر نہیں بن سکتا۔‘

خادم رضوی کو ’حافظ‘ لکھنے پر الیکشن کمیشن سے چیف جسٹس کا سوال

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کی نظر ثانی اپیل پر استفسار کیا کہ ’کیا الیکشن کمیشن نے بھی نظرثانی کسی کے حکم پر دائر کی تھی؟ الیکشن کمیشن نے قانون کو محض دکھاوا قرار دیا تھا۔‘ الیکشن کمیشن کے وکیل قمر افضل نے کہا کہ ’ان ریمارکس سے لاتعلقی کرنا چاہتے ہیں، عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کر دیا ہے، سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کی تحقیقات کر رہے ہیں، صرف قانون کو کاسمیٹک یعنی دکھاوا قرار دینے کا لفظ حذف کرانا چاہتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ ’آپ نے اپنے جواب میں خادم رضوی کو حافظ کیوں لکھا ہے؟ خادم رضوی کو آئینی ادارہ اتنی عزت کیوں دے رہا ہے؟ عدالتی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے کیا کارروئی کی؟ کیا آپ نے ٹی ایل پی رجسٹر کرانے والے شخص کو بلایا؟ ٹی ایل پی رجسٹریشن کرانے والا شخص تو دوبئی میں رہتا ہے۔ کیا الیکشن کمیشن اس طرح کام کرتا ہے؟ راتوں رات سیاسی جماعتیں کیسے رجسٹر ہوجاتی ہیں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں پاکستان میں اوپر سے حکم آتا ہے کچھ کہتے ہیں پہیے لگ جاتے ہیں۔‘

وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ ’ٹی ایل پی کو بلایا تھا رجسٹر کرانے والے کو نہیں، بیرون ملک رہنے والوں کے پارٹی رجسٹر کرانے والوں پر پابندی نہیں ہے۔‘

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ’ریکارڈ کے مطابق ٹی ایل پی کو 30 فیصد فنڈنگ بیرون ملک سے آئی۔‘ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’ٹی ایل پی کے پاس پچاس لاکھ روپے کی فنڈنگ کہاں سے آئی؟ پی نٹ کا لفظ استعمال کرکے لگتا ہے الیکشن کمیشن ٹی ایل پی کی وکالت کر رہا ہے۔‘ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ’پی نٹ (peanut) کا لفظ شاید مناسب نہیں ہے، ریکارڈ کے مطابق پارٹی کے لیے فنڈنگ مفتی عابد نے جمع کی ڈونرز نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کا کہا۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’بظاہر الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی قانون کے خلاف ہی کام کرتی رہی ہے، آئینی ادارہ کسی کے دفاع میں بیٹھا ہوا لگ رہا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان