عالمی ضمیر کی بیداری سے قبل کتنے لوگوں کو مرنا ہو گا؟ ملکہ رانیہ

اردن کی ملکہ رانیہ نے سی این این سے انٹرویو میں کہا کہ غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک تقریباً 10 ہزار اموات ہو چکی ہیں جن میں سے نصف بچے ہیں اور سوال اٹھایا کہ ’ہمارے عالمی ضمیر بیدار ہونے سے پہلے مزید کتنے لوگوں کو مرنا پڑے گا؟۔‘

اردن کی ملکہ رانیہ نے  غزہ میں جنگ بندی کے اجتماعی مطالبے پر زور دیا اور کہا کہ جو لوگ جنگ بندی کی مخالفت کر رہے ہیں وہ ’ہزاروں عام شہریوں کی موت کی توثیق اور جواز‘ پیش کر رہے ہیں۔

سی این این کی بیکی اینڈرسن کو اتوار دیے گئے ایک انٹرویو میں ملکہ رانیہ نے امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کی جانب سے جنگ بندی کے مطالبے کو مسترد کرنے پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔

ہفتے کو عرب رہنماؤں سے ملاقات کے بعد بلنکن نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی سے حماس کے مزید حملے ممکن ہوں گے۔

ملکہ رانیہ کا کہنا تھا ’جنگ بندی کے لیے مطالبہ اجتماعی طور پر کیا جانا چاہیے اور مجھے معلوم ہے کہ جنگ بندی کے خلاف کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس سے حماس کو مدد ملے گی۔ تاہم، اس دلیل میں وہ فطری طور پر موت کو بلاوا دے رہے ہیں، اور درحقیقت ہزاروں شہریوں کی موت کی توثیق اور جواز پیش کر رہے ہیں۔ اخلاقی طور پر (ایسا) قابل مذمت، تنگ نظری اور منطقی نہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر اسرائیل حماس کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو بھی اس تنازع کی بنیادی وجہ غیر قانونی قبضہ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، غیر قانونی آباد کاری، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اگر ہم بنیادی وجوہات پر توجہ نہیں دیں گے، آپ جنگجو کو تو مار سکتے ہیں لیکن آپ وجہ کو نہیں ختم کر سکتے۔‘

ملکہ رانیہ نے غزہ میں ’تباہ کن انسانی صورت حال‘ کی مذمت کی کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’ہمارے عالمی ضمیر بیدار ہونے سے پہلے مزید کتنے لوگوں کو مرنا پڑے گا؟۔‘

انہوں نے کہا کہ غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک تقریباً 10 ہزار اموات ہو چکی ہیں جن میں سے نصف بچے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’یہ صرف اعداد و شمار نہیں ہیں۔ ان بچوں میں سے ہر ایک کسی نہ کسی کا سب کچھ تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ غزہ میں ایک مخفف ہے ڈبلیو سی این ایس ایف: ’زخمی بچہ جس کا کوئی زندہ خاندان نہیں ہے۔ یہ ایک مخفف ہے جو کبھی نہیں ہونا چاہیے، لیکن یہ غزہ میں موجود ہے۔‘

 جب اسرائیل کے اس دعوے  سے متعلق پوچھا گیا کہ شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، تو ملکہ رانیہ نے زور دے کر کہا کہ اگرچہ انسانی ڈھال کا استعمال ’مجرمانہ‘ ہے، بین الاقوامی قانون کے تحت، اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی ہلاکتوں سے بچے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’کوئی بھی گولی چلانے سے پہلے، کوئی بھی بم گرانے سے پہلے، یہ اس ملک کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی زندگیوں کو لاحق خطرے کا جائزہ لے۔ اور اگر یہ خطرہ فوجی ہدف سے غیر متناسب ہے تو اسے غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔‘

اسرائیل کی جانب سے انخلا کے بہت سے احکامات کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں بجلی کئی ہفتوں سے منقطع ہے، اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے میں نہیں مانتی کہ یہ احکامات غزہ کے شہریوں کے فائدے کے لیے ہیں۔

’مقصد انہیں سنانا نہیں تھا۔ باقی دنیا کو سنانا ہے۔ یہ اسرائیل کی اپنے اقدامات کو جائز قرار دینے کی کوشش ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جب 11 لاکھ لوگوں کو اپنے گھروں کو چھوڑنے یا موت کا خطرہ مول لینے کے لیے کہا جائے، تو یہ شہریوں کا تحفظ نہیں ہے۔ یہ جبری نقل مکانی ہے۔‘

’اقوام متحدہ کے اداروں اور دیگر ایجنسیاں کہہ چکی ہیں کہ غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ اور یہاں تک کہ جن علاقوں میں انہوں نے لوگوں کو پناہ لینے کے لیے کہا ہے – وہ نام نہاد ’محفوظ علاقے‘ – ان پر بھی حملہ کیا گیا ہے۔‘

امریکہ میں یہودی اور مسلمانوں دونوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصب کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے یہود دشمنی اور اسلامو فوبیا دونوں کی ’بالکل اور تہہ دل سے‘ مذمت کی اور مزید کہا کہ  سب سے پہلے مسلمانوں کو یہود دشمنی کی مذمت کرنی چاہیے کیونکہ اسلامو فوبیا ’اسی بیماری کا دوسرا پہلو‘ ہے۔‘

انہوں نے کہا، ’ہمارے درمیان پرامن بقائے باہمی کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ تو یہ مذہب نہیں۔ یہ سیاست ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا