نیپال نے ٹک ٹاک پر پابندی لگا دی

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ نیپال نے یہ پابندی کیوں لگائی ہے۔

لندن میں ٹک ٹاک کے آفس میں ملازم فون کا استعمال کرتے ہوئے (فائل فوٹو/اے ایف پی)

نیپال نے ’سماجی ہم آہنگی‘ پر اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے چین کی سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر دی ہے۔

نیپال کے وزیر خارجہ نارائن پرکاش ساؤد نے کابینہ کے اجلاس کے بعد اعلان کیا کہ ایپ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، جس کا اطلاق فوراً ہو گا۔

پرکاش ساؤد نے کہا، ’حکومت نے ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ یہ اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے استعمال کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ضروری تھا جو سماجی ہم آہنگی، خیرسگالی اور غیر مہذب مواد کے بہاؤ میں خلل ڈال رہا ہے۔‘

چینی کمپنی بائٹ ڈانس کی ملکیت والی ٹک ٹاک پر انڈیا اور افغانستان سمیت متعدد ممالک نے پابندی عائد کر دی ہے جبکہ برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپی یونین نے اسے محدود کر دیا ہے۔

متعدد مغربی ممالک نے ان الزامات کے پیش نظر کہ بیجنگ اسے ڈیٹا جمع کرنے یا اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے، پارلیمنٹ اور حکومتی ارکان کی جانب سے اس ایپ کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ٹک ٹاک نے متعدد بار ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے کبھی بھی چینی حکومت کے ساتھ ڈیٹا شیئر نہیں کیا ہے اور اگر کہا گیا تو بھی وہ ایسا نہیں کرے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ فیصلہ نیپال میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نئے قوانین متعارف کرانے کے چند روز بعد سامنے آیا ہے، جس میں رابطہ دفاتر کا قیام بھی شامل ہے۔

نارائن پرکاش ساؤد نے کہا کہ نئے قوانین سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو مزید جوابدہ بنانے کے لیے لائے گئے ہیں۔ حکومت نے کمپنی سے نیپال میں رجسٹر ہونے، ایک رابطہ دفتر کھولنے، ٹیکس ادا کرنے اور ملکی قوانین پرعمل کرنے کا کہا ہے۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ یہ پابندی کس وجہ سے عائد کی گئی یا ٹک ٹاک نے نیپال کا بات نہیں مانی۔

نیپال کانگریس کے جنرل سکریٹری گگن تھاپا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس لکھا کہ ایپ پر پابندی لگانے کے حکومتی فیصلے پر سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ اس کے بجائے محدود کر دیا جانا چاہیے تھا۔ ’حکومت کے فیصلے کو درست کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ اظہار رائے کی آزادی اور انفرادی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔‘

اس پابندی کو سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اس فیصلے سے نیپال میں ٹک ٹاک کے لاکھوں صارفین متاثر ہوں گے جو اس سے پیسے کما رہے ہیں۔

ڈاکٹریٹ کی طالبہ اجاپا شرما نے کہا، ’نیپال کے جیرونٹوکریٹس نوجوان نیپالیوں کے لیے ٹک ٹاک کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ بہت سے لوگوں، گھریلو اور نوجوان خواتین مواد تخلیق کر کے پیسے کماتی ہیں۔ ظاہر ہے ریٹائرمنٹ نہ لنے والے سیاست دانوں کے لیے یہ بے معنی ہے۔‘

لندن کے کنگز کالج کی پروفیسر بھاونا شریشتا کا کہنا ہے کہ یہ پابندی ہی ’تشویش ناک‘ ہے اور اس کی وجہ یہ امکان پر مبنی تعمیم ہے کہ ٹک ٹاک صارفین سماجی اقدار میں خلل ڈالتے ہیں۔

مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق گذشتہ چار برسوں کے دوران برطانیہ میں ٹک ٹاک سے وابستہ سائبر کرائم کے 1600 سے زائد کیس ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی