چھ دہائیوں سے تعلیم کی فراہمی کے لیے کوشاں گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج خضدار اساتذہ کے شدید بحران کا شکار ہے۔
1962میں قائم انٹر کالج اور پھر 1968میں ڈگری کالج کا درجہ حاصل کرنے والے اس ادارے سے بلوچستان کی نامور شخصیات نے تعلیم حاصل کی جن میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، سابق سینیٹر حاصل خان بزنجو، سابق گورنر بلوچستان لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادربلوچ ودیگر سیاسی قبائلی سردار، سماجی، ادبی شخصیات شامل ہیں۔
گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج خضدار کے پرنسپل حافظ حمیداللہ نے بتایا کہ کالج کی 76 ٹیچنگ اسامیوں میں صرف 33 پر ہیں اور 56 اسامیاں خالی ہیں۔
’اسامیاں خالی ہونے سے تعلیمی سلسلے میں خلل پیدا ہوا ہے۔ بی ایس شعبہ جات میں لیکچرار نہ ہونے کی وجہ سے کلاسز نہیں ہو رہی ہیں۔ بی ایس (زولوجی، اسٹیٹکس، کمیسٹری، فزکس، انگلش، سائیکولوجی، فلسفہ، میڈیا سمیت متعدد شعبہ جات کے لیکچرار کافی عرصے سے نہیں ہیں۔
’مختلف لیکچرارز جو تعینات تھے ریٹائر ہوئے یا کسی دوسرے شہر میں ٹرانسفر کرا دیے۔ 2000 سے زائد زیر تعلیم طلبہ کے لیے کالج میں صرف33 اساتذہ موجود ہیں جن میں ایک پروفیسر، ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر، چھ اسسٹنٹ پروفیسر، 21لیکچرار ایک انفارمیشن لکچرار اور دو لائبریرین شامل ہیں۔‘
پرنسپل کالج حافظ حمیداللہ نے طلبہ کو درپیش مسائل کے حوالے سے بتایا کہ اُدھار میں ایندھن استعمال کر رہے ہیں اس سال ایندھن کی مد میں جو بجٹ ملا تھا وہ مہنگائی کی وجہ سے گذشتہ سال کے بجٹ میں خرچ کر دیا تھا حکام بالا کو متعدد بار خالی اسامیوں کے حوالے سے آگاہ کیا ہے ہاسٹل کی تعمیر کے لیے کئی بارمطالبہ کرچکے ہیں۔
سینکڑوں طلبہ بی ایس میں داخلے کے منتظر
طالب علم رحمت بلوچ نے بتایا کہ ’کالج میں اساتذہ نہ ہونا بنیادی مسئلہ ہے۔ اساتذہ کے کمی کی وجہ سے کلاسز نہیں ہو رہی ہیں کلاسز کے لیے لیکچرار کی سخت کمی ہے، لیکچرار کی کمی کی کو پورا کیا جائے تو کلاسز بالترتیب پوری ہوں گی جو لیکچرار موجود ہیں ان میں چند کے علاوہ باقی پڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں طلبہ یہاں وقت ضائع کرنے کے بجائے کسی لائبریری، اکیڈمی یا پھر دوسرے شہر پڑھنے کے لیے جاتے ہیں اور یہاں صرف امتحان دینے آتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اور طالب علم نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کالج میں پڑھنے کے لیے مواقع فراہم نہیں کیے جاتے ہیں۔ لائبریری میں انٹرنیٹ نہیں ہے صرف دو گھنٹے لائبریری کو کھولا جاتا ہے، ہاسٹلوں میں پانی کی سہولت میسر نہیں، بی ایس کی کوئی کلاس نہیں ہوتی ہے، کوسٹر کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے دور دراز علاقوں سے آنے والے طلبہ کو ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر نہیں ہے۔‘
کالج میں سیکنڈ ایئر کے طالب علم عامر بلوچ نے بتایا کہ ’کالج انتظامیہ کو ویلکم پارٹی، پکنک، ہاسٹل کی مرمت، بزم ادب تعلیم تقریب کی مد میں بجٹ ملتا ہے جس سے طلبہ استفادہ نہیں کر پاتے ہیں۔‘
ہاسٹل کے مسائل کے حوالے سے ہاسٹل وارڈن کی ذمہ داریاں ادا کرنے والے پروفیسر عزیر نے بتایا کہ ’ہمارے پاس 120 طلبہ کی رہائش کی سہولت موجود ہے لیکن صرف 33 طلبہ باقائدہ ضوابط کو پر عمل درآمد ہوکر رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔
’ہاسٹل میں متعدد آؤٹ سائیڈر طلبہ رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں ہمارے پاس سکیورٹی نہیں کسی کو روکیں جب چھاپہ لگاتے ہیں تو آؤٹ سائیڈرز رفوچکر ہوجاتے ہیں ہاسٹلوں کے اندر وافر مقدار میں پانی موجود ہے اور حال میں بجلی کے تمام مسائل حل کیے گئے ہیں۔‘
ڈویژنل مونیٹرنگ آفیسرکالجز ڈاکٹر محمد اسحاق باجوئی نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ ’مختلف کالجز میں عارضی طور پر لیکچرارز خدمات سرانجام دے رہے تھے حکام بالا کی جانب سے ان کی تعنیاتی پر اعتراضات اٹھائے گئے اور وہ تمام عارضی لیکچرارز کو ایک سال کی تنخواہ کے بغیر ہمیں فارغ کرنا پڑا یوں کالجز میں اساتذہ کی قلت پیدا ہوگئی۔
’دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکام بالا بااثر افراد کو ان کی خواہش کے مطابق ٹرانسفر کرتے ہیں۔ ٹرانسفر پوسٹنگ میں متعلقہ کالج کی ضرورت کو نظر کرکے کالج انتظامیہ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا جاتا ہے انٹر کالجز میں ایک ہی مضمون کے تین چار لیکچرار موجود ہوتے ہیں جبکہ ڈگری کالجز میں جہاں ضرورت ہے وہاں مختلف شعبوں میں ایک بھی لیکچرار موجود نہیں ہے۔‘
گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج سے 1972 میں تعلیم حاصل کرنے والے محمد عالم جتک جو ماہر تعلیم ہونے کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی خضدار میں بطور رجسٹرار اور بلوچستان ریزیڈنشل کالج خضدار میں بطور پرنسپل خدمات دیتے رہے ہیں انہوں نے ڈگری کالج خضدار میں اوائلی تعلیم کے معیار کے حوالے سے بتایا اُس زمانے میں بلوچستان کے ہر کونے سے لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے اور اس ادارے میں تعلیم کا ایک بہترین معیار تھا ہاسٹل اور تعلیمی تمام سہولیات طلبہ کے لیے دستیاب تھیں ملک بھر سے لیکچرارز یہاں پڑھانے آتے تھے۔