تاریخ کی طرف دیکھیں تو بیوہ خواتین کے سر کے بال صاف کر کے ان کو سفید لباس پہنایا جاتا تھا اور ان کو گھر سے الگ کر دیا جاتا تھا۔ پھر وہ ساری زندگی سوگ میں رہتی تھیں۔
کچھ قبائل میں ان کی چوڑیاں توڑ دی جاتی تھیں اور ان پر بناؤ سنگھار ممنوع ہو جاتا تھا، ان کو ایک مخصوص لباس ساری زندگی پہننا ہوتا تھا، ان کو غمی خوشی کی تقاریب سے دور رکھا جاتا تھا۔
دوسری طرف تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ بیوہ عورتوں کو شوہروں کی چتا کے ساتھ بھی زندہ جلا دیا جاتا تھا۔
اب جدید دور میں بھی بیوہ خواتین کو تنگ کیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ بدسلوکی، دھوکہ دہی اور نفرت کا چلن عام ہے۔ گھر میں فوتگی ہو جائے، شوہر چلا جائے، عورت کے لیے یہ قیامت ہوتی ہے۔
ایک محبت کرنے والے انسان سے بچھڑنے کا غم دوسری طرف یہ فکریں بھی سر آ جاتی ہیں کہ گھر کیسے چلے گا، بچوں کو کیسے اکیلا بڑا کروں گی۔ گھر کا کرایہ، سکول کی فیس، مہینے کا راشن یہ سب کیسے ہو گا۔
عورت کو دکھ کے بوجھ کے ساتھ ساتھ معاشی چکی تلے بھی پس جاتی ہے۔ بہت سے گھروں میں باپ بھائی سسرال والے بیوہ اس کے یتیم بچوں کو اپنی کفالت میں لے لیتے ہیں۔ پر ہر کوئی اتنا خوش نصیب نہیں ہوتا، بیوہ غریب ہو تو اس کو دھتکارا جاتا ہے اس پر بری نظر ڈالی جاتی ہے، اس کو عزت نہیں دی جاتی۔ وہ چار ماہ دس دن کی عدت میں بھی غم کے ساتھ اپنے اہل و عیال کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے میں لگ جاتی ہے۔
اگر بیوہ امیر ہے تو اس کے مسائل الگ ہیں لوگ اس کی جائیدایں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کے جھوٹے ہمدرد پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس موقعے پر جب گھر میں میت پڑی ہو، لوگ جعلی وصیتیں، جعلی وراثت نامے اور جعلی ڈیتھ سرٹیفیکٹ تک بنوا لیتے ہیں۔ بیوہ اور یتیم جب صدمے سے باہر آتے ہیں تو ان کی سمجھ آتی ہے کہ ان کے ساتھ کیا کیا دھوکہ دہی ہو گئی ہے۔
چار ماہ دس کی عدت ایک ایسا دور ہوتا ہے جس میں بیوہ رونا چاہتی ہے اکیلے رہنا چاہتی ہے، لیکن معاشرتی رویے اور خاندانی سیاست اس کو غم بھی منانے کی اجازت نہیں دیتے۔
سانحات پر بھی دھوکہ دہی عام ہے۔ جب بیوگی کا غم میرے سامنے آیا تو مجھے بھی بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، جس میں سب سے تکلیف دہ عمل پمز ہسپتال سے ارشد شریف کی پوسٹ مارٹم کی تصاویر لیک ہونا تھا۔
زندہ تو الگ رہے، کیا اس ملک میں مردہ کی بھی کوئی پرائیویسی نہیں؟
ریٹنگز اور سوشل میڈیا ہٹس کی وجہ سے لوگ کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔ میں ان تصاویر کے صدمے سے باہر نہیں نکل سکی جو ان کی کار اور کینیا کے ہسپتال میں لی گئی تھی کہ پوسٹ مارٹم کی تصاویر سوشل میڈیا اور میڈیا پرگردش کرنے لگیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ تصاویرمیرے لیے بہت تکلیف دہ یوں بھی تھیں کہ ارشد ہمیشہ مکمل لباس پہنتے تھے اور ان کو نہیں پسند تھا کہ مرد بنیان یا شارٹس میں باہر گھومیں۔ اس شخص کی تصاویر سوشل میڈیا پر تھیں۔ پھر پمز ہسپتال پوسٹ مارٹم رپورٹس دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہا تھا۔ بہت دنوں کے انتظار کے بعد مجھے کاپی موصول ہوئی۔ ڈیتھ سرٹیفیکیٹ لیتے ہوئے بھی یہ ہی صورت حال ہوئی۔ پاکستان میں جینا تو مشکل ہے ہی، مرنا بھی آسان نہیں۔
میں آنکھیں بند کرتی ہوں تو کرائم سین، سر میں لگی گولی، ارشد کا ڈھلکا ہوا سر میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ میں ڈر کر دوبارہ آنکھیں کھول دیتی ہوں۔
عدت کے بعد بھی میں زیادہ گھر سے نکلنا پسند نہیں کرتی۔ مجھے شور سے وحشت ہوتی ہے۔ مجھے پمز اور قائد اعظم ہسپتال کے سامنے گزرتے ہوئے گھٹن ہوتی ہے۔ ایمبولنس کا سائرن، پولیس کی گاڑیوں کا شور، عوام، سرد خانہ، رونا بین سب میرے اعصاب کو ہلا دیتا ہے۔
عدت کے بعد مجھے یہ ڈر تھا کہ معاشرہ میرے ساتھ بطور بیوہ کیا سلوک کرے گا، کیا مجھے کسی قسم کے دقیانوسی رویوں کا سامنا کرنے پڑے گا؟ میں گذشتہ برس سے کالا رنگ پہنے کو فوقیت دیتی ہوں یہ رنگ میرے دکھ کی علامت ہے۔ پر مجھے عدت کے ختم ہونے میرے احباب نے رنگ تحفے میں دیے۔
زندہ تو الگ رہے، کیا اس ملک میں مردہ کی بھی کوئی پرائیویسی نہیں؟
میرے پاس لباس، بیگز، جیولری اور جوتوں کی کمی نہیں، پر اتنے بڑے سانحے کے بعد میرا دل نہیں کرتا کہ میں تیار ہوں یا میک اپ کروں۔ میں اکثر سیلف کیئر کے معاملے پر سست بن جاتی ہوں، دل نہیں کرتا کہ خود کو سنوارا جائے۔
میں نے سارا سال نیل پالش نہیں لگائی۔ کچھ سوگ شاید معاشرہ نہیں ہم خود اپنے لیے منتخب کر لیتے ہیں۔ مجھ پر کوئی دباؤ نہیں تھا، میرے اردگرد میرے خاندان کے لوگ دوستیں بہت ہمدرد اور محبت کرنے والے ہیں۔ پر آپ کا دل نہیں کرتا اور آپ خود کو مجبور نہیں کرسکتے۔
خاندان میں دو شادیاں آ گئیں۔ پہلے میں سوچا کہ نہ جاؤں، مجھے معاشرتی رویوں کا ڈر تھا۔ پر سب نے کہا تم نہیں آؤ گی تو تقریبات شروع نہیں کریں گے۔
میں نے بہت عرصے بعد وارڈروب میں قدم رکھا تو دیکھا کچھ کپڑے، بیگ اور جوتے استعمال نہ ہونے کی وجہ سے خراب ہو گئے ہیں۔ مجھے دکھ نہیں ہوا کیونکہ یہ تو بہت معمولی نقصان ہیں، جس دکھ کے ساتھ میں جی رہی ہوں وہ بہت مشکل ہے۔
خاندان کی شادیوں کے لیے تیار ہوئی، اچھے کپڑے، جیولری پہنی اور سوچا کہ میں سارے فنکشنز میں اپنی نشت سے نہیں اٹھوں گی۔ بالکل بھی سٹیج پر نہیں جاوں گی اور کوشش کروں گی کہ تمام رسموں سے بھی دور رہوں۔
پر تمام تقریبات میں اپنے رشتہ داروں کا رویہ مجھے دنگ کر گیا۔ مہندی کی رسم کا آغازعام طور پر سات سہاگنیں کرتی ہیں لیکن مہندی کی رسم کا آغاز مجھ سے کروایا گیا۔ میں نے بہت منع کیا لیکن دلہا دلہن اور ان کے والدین نے کہا یہ رسم سب سے پہلے میں ہی کروں گی۔
میری آنکھوں میں نمی تھی۔ ایک ارشد کے نہ ہونے کے دکھ اور ایک شہید کی بیوہ کو ملنے والا مان اور ایک انسان کا پیار کا سلوک مجھے ہمیشہ یاد رہےگا۔ میں نے اپنے آنسو پی لیے۔ کسی کی خوشی کی تقریب میں رونا مناسب نہیں ہے۔
سب نے اصرار کیا کہ میں تمام رسموں میں حصہ لوں، اور ہر دن اسی طرح تیار ہوں جیسے ارشد کی زندگی ہوتی تھی۔ میرا دکھ یا تکلیف کم تو نہیں ہو سکتا لیکن محبت بھرے لوگوں کی طرف سے کی گئی شفقت مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔
جب فوٹو شوٹ کا مرحلہ آیا تو میرے مرحوم شوہر کی نشست خالی تھی تو خاندان کے بہت بہت پیارے پیارے بچے میرے ساتھ تصویر بنوانے آ گئے تاکہ مجھے اکیلے پن کا احساس نہ ہو۔
ارشد کے جانے کے بعد میں بہت کم گو ہو گئی ہوں اور طبی مسائل کا بھی سامنا کر رہی ہوں۔ شادی کی تقریب میں خاص طور پر میرے لیے کھانا میرے میز پر ہی لگوایا گیا تاکہ مجھے رش میں انتظار نہ کرنا پڑے۔
میں جہاں بھی جاتی ہوں لوگ ادب سے ملتے ہیں، ارشد اور مجھے دعائیں دیتے ہیں۔ جہاں کچھ برے لوگ ہیں جنہوں نے عدت میں شادی کا مجھ پر جھوٹا الزام لگایا مجھے تکلیف دی، وہاں لاتعداد اچھے لوگ ہیں جو دکھ کے لمحوں میں میرے لیے ہمت کا باعث ہیں۔
اگر ایسے ہی سب بیوہ خواتین کا احترام کریں تو معاشرے میں کتنی تبدیلی آ سکتی ہے۔