کیا حلقہ بندیوں کے معاملے پر انتخابات موخر ہو سکتے ہیں؟

2018 میں بھی یہ خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ اگر حلقہ بندیوں پر نظرثانی کی گئی تو پھر وقت پر انتخابات کروانا ناممکن ہو جائے گا۔

16 اکتوبر 2022 کو کراچی میں قومی اسمبلی کی نشستوں کے ضمنی انتخاب کے دوران ایک خاتون ووٹر پولنگ سٹیشن میں اپنا ووٹ ڈال رہی ہیں۔ (آصف حسن / اے ایف پی)

الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے 17 اگست 2023 کے روڈ میپ کے مطابق حلقہ بندیوں کا حتمی نوٹی فکیشن 30 نومبر کو جاری کرنے کا مجاز ہے۔

قومی اسمبلی کی 266 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی کل نشستوں کی تعداد 593 کو مدنظر رکھتے ہوئے حلقہ بندیوں کی مجوزہ دفعات 17 سے 22 تک تمام قانونی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیاں مکمل کر لی ہیں اور ان پر اعتراضات کا، جو 1470 کے لگ بھگ تھے، فیصلہ ایک ماہ کے دورانیے کے اندر مکمل کر لیا ہے۔

تمام اعتراضات کنندگان کو ان کی مرضی کے مطابق الیکشن کمیشن نے وقت فراہم کیا اور دلائل، نقشوں، ویب سائٹس اور سکرینوں کے ذریعے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی۔

الیکشن کمیشن نے پانچ اگست 2023 کے مردم شماری کے نوٹی فکیشن اور مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے مطابق آئین کے آرٹیکل 51 (5) کے مطابق ازسرِنو حلقہ بندیوں کے مشن کو آگے بڑھایا اور اس کے نتیجے میں مشترکہ مفادات کونسل کے مطابق 30 نومبر کو حلقہ بندیوں کا گزٹ نوٹی فکیشن جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس کے باوجود بھی حلقہ بندیوں پر اعتراضات کنندگان کے تحفظات برقرار رہتے ہیں تو وہ ہائی کورٹس میں اپیلیں دائر کرنے کے مجاز ہیں، جس کا آئین کا آرٹیکل 99 مکمل استحقاق دیتا ہے، لیکن توقع ہے کہ انتخابی کمیشن ہائی کورٹس کی اپیلوں کے باوجود انتخابی شیڈول 15 دسمبر کے لگ بھگ جاری کر دے گا تاکہ انتخابی عمل متاثر نہ ہو۔

ماضی قریب میں جولائی 2018 کے انتخابات سے پیشتر بھی الیکشن کمیشن نے جون 2018 میں حلقہ بندیوں کا حتمی نوٹی فکیشن جاری کر دیا تھا اور اپیلوں کے دروازے کھل گئے تھے۔ حلقہ بندیوں کے گزٹ نوٹی فکیشن کے خلاف سندھ، لاہور، بلوچستان اور پشاور ہائی کورٹس میں اپیلیں دائر کی گئی تھیں جس کے نتیجے میں سندھ اور لاہور ہائی کورٹس نے حلقہ بندیوں کی اپیلوں کے حق میں فیصلے صادر کرنے شروع کر دیے تھے۔

اس کے بعد یہ خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ اگر معزز ہائی کورٹس کے فیصلوں کی روشنی میں حلقہ بندیوں پر نظرثانی کی گئی تو پھر 25 جولائی 2018 کو انتخابات کروانا ناممکن ہو جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر سردار رضا نے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار سے استدعا کی کہ چونکہ الیکشن ایکٹ کی دفعات کے مطابق حلقہ بندیوں کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے اور کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

ویسے بھی اپیل آئین کے آرٹیکل 99 کے تحت دائر کی جاتی ہے، لہٰذا ہائی کورٹس کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے کر 25 جولائی 2018 کے انتخابات کی راہ ہموار کی جائے۔

الیکشن کمیشن کے دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے چیف جسٹس جسٹس (ر) ثاقب نثار نے فیصلہ جاری کرتے وقت ہائی کورٹس کی تمام اپیلوں کو مسترد کر دیا اور الیکشن کمیشن کو فری ہینڈ دے دیا گیا۔

اسی فیصلے کے تحت اب اگر حلقہ بندیوں پر اعتراضات کنندگان ہائی کورٹس میں اپیلیں دائر کرتے ہیں تو لامحالہ الیکشن کمیشن سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے احکامات کے تحت تمام اپیلوں کو کالعدم یا مسترد کرنے کا مجاز ہو گا اور الیکشن آٹھ فروری کو نئی حلقہ بندیوں کے مطابق منعقد ہوں گے۔

اندرونی حلقوں میں قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں کہ انتخابات آٹھ فروری کو نہیں ہو پائیں گے اور ان کے ستمبر یا اکتوبر 2024 تک موخر ہونے کے امکانات ہیں۔

الیکشن کمیشن نے ساڑھے 12 کروڑ ووٹروں کی فہرست بھی پرنٹ کروا دی ہے اور متعلقہ امیدوار قانون کے مطابق اپنے اپنے حلقوں کی انتخابی فہرستیں انتخابی کمیشن کے ضلعی دفاتر سے حاصل کر سکتے ہیں۔

عدالتوں کے فیصلے کاغذات نامزدگی پیش کرتے ہوئے ریٹرننگ آفیسران نے ہی جانچ پڑتال کے دوران دیکھنے ہوتے ہیں۔ ریٹرننگ افسران کے فیصلوں کے خلاف اپیل کے لیے الیکشن کمیشن کو متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف ججز کی مشاورت سے انتخابی ٹربیونلز مقرر کرنے ہوں گے۔

الیکشن ٹربیونلز کے جج حاضر سروسز سے لیے جاتے ہیں، ان کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے اور ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔

لیکن دوسری جانب اندرونی حلقوں میں قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں کہ آنے والے انتخابات آٹھ فروری کو نہیں ہو پائیں گے اور ان کے ستمبر یا اکتوبر 2024 تک موخر ہونے کے امکانات ہیں۔

اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس وقت ملک میں سیاسی کشمکش، تناؤ، خلفشار، تنازعات، عدالتوں میں اہم فیصلوں کے زیرِ سماعت ہونے، سیاسی جماعتوں کی تقسیم، سندھ میں شدید محاذ آرائی، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خون ریز دہشت گردی کے واقعات ہیں۔

ان حالات میں یہ الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ کا بھی امتحان ہے کہ وہ انتخابات کے مقررہ وقت پر انعقاد کو یقینی بنائے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی آرا پر مبنی ہے، جن سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر