عام انتخابات کی تاریخ سامنے آنے کے بعد پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے جلسوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
اگرچہ بعض حلقوں کی جانب سے اب بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن تمام قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ انتخابات اپنے مقررہ وقت پر آٹھ فروری 2024 کو منعقد ہوں گے۔
اس دوران اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ پاکستان کے آئندہ کے سیاسی سیٹ اپ اور انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے سابق امریکی وزیر خارجہ رابن رافیل پاکستان کے دورے پر آ رہی ہیں۔
وہ پاکستان کے اتنخابات کے حوالے سے اہم شخصیت سے ملاقات کریں گی۔ 17 نومبر کو اسلام آباد میں وہ جس اہم شخصیت سے ملاقات کرنے جا رہی ہیں، اس میں مجھے بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا ہے۔ اس ملاقات میں پاکستان کے مستقبل کے سیاسی خدوخال پر اظہارِ خیال کیا جائے گا۔
موجودہ صورتِ حال میں سابق امریکی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان بڑی اہمیت کا حامل تصور کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب صدر مملکت کے حالیہ انٹرویو سے سیاسی، قانونی اور ریاستی فضا مکدّر ہو گئی ہے۔ صدر مملکت کو جنوری میں انتخابات نہ ہونے کے بارے میں تاثرات اور لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے نگران وزیراعظم کو خط لکھنے سے صدر کی غیر جانبداری سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ ریاست کی ایک اعلیٰ عہدیدار کی طرف سے آئندہ انتخابات کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ طرزِ عمل مناسب نہیں ہے۔ ریاست کے اعلیٰ عہدیدار انتخابات مشکوک بنانے میں مصروف ہیں۔
ان کا اشارہ بادی النظر میں صدر مملکت کی طرف ہی جاتا ہے۔ میڈیا میں انتخابات کی شفافیت اور لیول پلیئنگ فیلڈ کی اصطلاح پر جو مہم چل رہی ہے، اس کا اخذ آئین کا آرٹیکل 218 سے لیا گیا ہے۔ اس کا بین السطور میں ہی مطلب اخذ کیا جا رہا ہے کہ انتخابات آزادانہ، منصفانہ اور غیرجانبدارانہ کا انعقاد کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔
الیکشن کمیشن نے بھی فروری 2024 کے آزادانہ ماحول میں انتخابات کروانے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ الیکشن کمیشن نے 266 قومی اسمبلی کے حلقوں کے لیے ریٹرننگ آفیسران کا تقرر کر دیا ہے اور 593 صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کے لیے ریٹرننگ آفیسران کا تقرر آخری مرحلہ میں ہے۔
تمام ریٹرننگ آفیسران کا تعلق انتظامیہ سے ہے اور چیف الیکشن کمشنر ان کا سابق ریکارڈ اور کارکردگی کو مدِنظر رکھ کر ہی ان کا تقرر کر رہے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں جسٹس (ر) ارشد حسین شاہ کی بطور نگران وزیر اعلیٰ تقرری سے آئینی ضرورت پوری ہو گئی ہے۔ وہ آٹھ فروری کے انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت کریں گے۔
اس دوران تحریک انصاف کے رہنما عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس اور توشہ خانہ کیس کی جیل میں سماعت جاری ہے۔ پراسیکیوشن چھ گواہ اڈیالہ جیل لے کر گئی ہے۔
تین گواہوں کے بیانات پر جرح ہو چکی اور پانچ، پانچ فیملی ممبران کو جیل کمرہ عدالت میں دوران سماعت موجود رہنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کی سائفر کیس کی کھلی عدالت میں سماعت کی اپیل پر جسٹس میاں گل اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت غور کریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت نے گذشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل کو ہدایت کی تھی کہ ٹرائل کی عمارت ایسی کھڑی نہ کریں جو آگے چل کر بکھر جائے۔
اس دوران وفاقی کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے سائفر کیس کی جیل میں سماعت کی سمری کی منظوری کر لی تھی اس کے بھی اثرات ہوں گے لیکن میرے خیال میں سائفر کیس کا معاملہ اوپن کورٹ کی طرف بڑھ رہا ہے، بےشک سماعت جیل میں ہی کیوں نہ ہو رہی ہو۔
عمران خان کے القادر ٹرسٹ کیس اور توشہ خانہ قومی احتساب بیورو کیسز میں ضمانت بحالی کی درخواستوں پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری سماعت کر رہے ہیں۔
عدالت نے وزارت قانون کو ہدایت کر رکھی ہے کہ قومی احتساب بیورو ترامیم کی کاپی عدالت کے سامنے پیش کرے، اس دوران قومی احتساب بیورو نے دونوں مقدمات میں عمران خان کی گرفتاری ڈال دی ہے جس کے بعد بظاہر یہ درخواستیں غیر موثر ہو چکی ہیں، تین سوالات کے جوابات آنا باقی ہیں کہ نیپ نے 93 دن بعد گرفتاری کیوں ڈالی۔
عمران خان کے وکلا نے 53 دن بعد عدم پیروی ضمانت خارج ہونا کیوں چیلنج کیا۔ عدالت 35 دن گزرنے کے باوجود فیصلہ کیوں نہ کر سکی۔ حالانکہ یہی بنچ اس قسم کے نو کیسوں میں اسی قانونی پوائنٹ پر ضمانت کی درخواستیں بحال کر چکی ہیں۔
ادھر اہم پیش رفت ہوئی ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی کا نوٹی فیکیشن معطل کر دیا گیا ہے، عمران خان جیل میں ہیں مگر ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے عوام کو پیغام پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔