ہنری کسنجر کے مبینہ جنگی جرائم کی مختصر تاریخ

کسنجر، جو بدھ 29 نومبر کو امریکی ریاست کنیکٹیکٹ میں اپنے گھر میں 100 سال کی عمر میں انتقال کر گئے، اپنے پیچھے قومی سلامتی کے مشیر اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے ایک داغدار وراثت چھوڑ گئے ہیں۔

سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر برلن میں 21 جنوری، 2020 کو ایک تقریب میں شریک ہیں (اے ایف پی/ جان مک ڈوگل)

امریکی خارجہ پالیسی کے سربراہ ہنری کسنجرکی آٹھ سال پر محیط حقیقی سفارت کاری کے انوکھے برانڈ کو انتہائی بڑے پیمانے پر نسل کشی، قتل عام، ریپ اور تشدد کے واقعات کا باعث قرار دیا جاتا ہے۔

’کسنجرز شیڈو‘ نامی کتاب کے مصنف، ییل یونیورسٹی کے مورخ گریگ گرینڈن سمیت دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی سفارتی کوششوں کے معمار نے سرد جنگ کے دوران سوویت یونین پر قابو پانے کے لیے اخلاقیات کی بجائے نظریے کو ترجیح دی اور 1969 سے 1976 کے درمیان 30 سے 40 لاکھ افراد کی موت کا ذمہ دار بنے۔

نکسن اور فورڈ انتظامیہ کے تحت وزیر خارجہ کی حیثیت سے، انہوں نے عالمی معاملات میں مداخلت پسندانہ نقطہ نظر اپنایا جس نے ان کے بعد آنے والے نیوکون (قدامت پسند سیاست دانوں) کی نسل کی سوچ کو تشکیل دی۔

2001 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’دی ٹرائل آف ہنری کسنجر‘ میں معروف برطانوی مصنف کرسٹوفر ہچنز نے منظم طریقے سے اس بات کا مقدمہ پیش کیا تھا کہ اس عمر رسیدہ امریکی سیاست دان کے خلاف قتل، اغوا اور تشدد جیسی سازشوں میں ملوث ہونے کا مقدمہ چلایا جائے۔

ہچنز نے لکھا ہے کہ امریکہ یا تو ’ایک بدنام زمانہ جنگی مجرم اور قانون شکن کو ملنے والے حیران کن استثنیٰ سے اپنی نظریں ہٹائے رکھے گا، یا ان پر بھی وہ معیارات لاگو ہوں گے، جن کا اطلاق وہ مسلسل ہر کسی پر کرتے ہیں۔‘

کسنجر، جو بدھ 29 نومبر کو امریکی ریاست کنیکٹیکٹ میں اپنے گھر میں 100 سال کی عمر میں انتقال کر گئے، اپنے پیچھے قومی سلامتی کے مشیر اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے ایک داغدار وراثت چھوڑ گئے ہیں جو اس حقیقت کے کئی سال بعد ہی سامنے آئے گی، جب امریکی ریکارڈ منظرعام پر لایا جائے گا، آمرانہ حکومتیں ختم ہوں گی اور حساب ہوگا۔

جرمنی میں نازیوں کے دور میں ایک یہودی کی حیثیت سے پرورش پانے کے تجربات سے ان کا عالمی نقطہ نظر تشکیل پایا۔ اس سے امریکی طاقت کو اپنے کمیونسٹ مخالفین کی طرف موڑنے کی ضرورت ترجیح بن گئی اور ان ممالک کے لیے تباہ کن نتائج کا باعث بنا جو ان کی ’میکیاویلین‘ حکمت عملیوں کی فہرست پر تھے۔

اپنے آخری برسوں میں، کسنجر کو مبینہ طور پر ان ممالک کا سفر کرنے سے گریز کرنا پڑا جہاں انہیں ان کے ریکارڈ کے حساب سے طلب کیا جاسکتا تھا۔

اپنے خون آلود ریکارڈ کے باوجود، وہ اپنی موت تک امریکی خارجہ پالیسی کے حلقوں میں ایک قابل احترام شخصیت رہے۔

کمبوڈیا

کسنجر کے اثر و رسوخ کا اثرا کمبوڈیا سے زیادہ شدت کے ساتھ کہیں بھی محسوس نہیں کیا گیا، جہاں 1969 میں ’خفیہ بمباری‘ کی مہم کے ذریعے ویتنام جنگ کو وسعت دینے میں ان کے کردار اور اگلے سال امریکی افواج کی زمینی دراندازی کی وجہ سے یہ جنوب مشرقی ایشیائی ملک آج تک متاثر ہے۔

امریکہ نے ’آپریشن مینو‘ نامی مہم میں پانچ لاکھ 40 ہزار ٹن سے زیادہ بم گرائے، جسے انہوں نے اور اس وقت کے صدر نکسن نے خمر روج کو تباہ کرنے کی کوشش میں کانگریس کی حمایت یا علم کے بغیر جاری رکھا۔

امریکہ کی کمبوڈیا کے ساتھ جنگ نہیں تھی، لیکن کسنجر نے محسوس کیا کہ خمر روج کو کمیونسٹ شمالی ویتنامی فوج کی حمایت کرنے سے روکنے کے لیے وحشیانہ آپریشن ضروری تھا۔

تباہ کن فوجی مہم کے نتیجے میں کمبوڈیا کی حکومت اور پول پوٹ کی سربراہی میں نسل کشی کرنے والی خمر روج حکومت کے درمیان آٹھ سالہ خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ اس جنگ میں ایک اندازے کے مطابق 275000-310000 افراد مارے گئے، لاکھوں بے گھر ہوئے، اور ملک کا پانچواں حصہ تباہ ہوگیا۔

1970 کی ٹیلی فون گفتگو کی خفیہ نقل میں، کسنجر نے کمبوڈیا کی صورت حال کے بارے میں نکسن سے بات کی جس کے بعد اپنے نائب الیگزینڈر ہیگ کو مندرجہ ذیل حکم دیا: ’وہ کمبوڈیا میں بڑے پیمانے پر بمباری چاہتے ہیں ... یہ ایک حکم ہے، یہ ہونا چاہیے۔ اڑنے والی کوئی بھی چیز، حرکت کرنے والی کسی بھی چیز پر، آپ سمجھے؟‘

90 سال کی عمر میں کسنجر نے کہا کہ امریکی فضائی بمباری کمبوڈیا کے ان حصوں میں ہوئی جو ’بنیادی طور پر غیر آباد‘ تھے، تاہم بڑے پیمانے پر شواہد اس کے برعکس ہیں۔

بعد ازاں کسنجر پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے 1968 کے پیرس امن مذاکرات کے دوران لنڈن بی جانسن انتظامیہ کو مشورہ دیتے ہوئے جنوبی ویتنام کی حکومت کو خفیہ انٹیلی جنس فراہم کر کے امریکہ اور ویت کانگ کے درمیان امن مذاکرات کو سبوتاژ کیا تھا۔

بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ کسنجر کو جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کرنے پر 1973 میں امن کا نوبل انعام دینا عجیب تھا۔

ملک کا دورہ کرنے کے بعد آنجہانی شیف، مصنف اور ٹی وی آئیکون انتھونی بورڈین نے 2011 میں اپنی کتاب ’اے کوکس ٹور‘ میں لکھا: ’جب آپ ایک بار کمبوڈیا جائیں، تو آپ اس وقت تک خود کو نہیں روک پائیں گے جب تک ہنری کسنجر کو اپنے خالی ہاتھوں سے پیٹ پیٹ کر مار نہ دیں۔‘

ہنری نے کمبوڈیا میں جو کیا وہ دیکھنے کے بعد- اور سٹیٹ مین شپ کے لیے ان کی ذہانت کا ثمر- آپ کبھی نہیں سمجھ پائیں گے کہ وہ دی ہیگ میں سمندر کیے ساحل پر میلوسویچ (سیاست دان) کی بغل میں کیوں نہیں بیٹھے ہوئے۔‘

سال 2017 میں نیویارکر سے بات کرتے ہوئے بورڈین نے کہا تھا کہ وہ اس بات سے پریشان ہیں کہ نیویارک کے معاشرے نے کسنجر کو قبول کیسے کیا۔

سینیٹر برنی سینڈرز کا کہنا تھا کہ کسنجر نے دنیا کی تاریخ کی بدترین نسل کشی کی۔

مشرقی تیمور

انڈونیشی افواج کے ہاتھوں مشرقی تیمور کے عوام کے قتل عام میں کسنجر کا خونی کردار اس حقیقت کے کئی دہائیوں بعد ہی سامنے آئے گا۔

2021 میں کلاسیفائیڈ کاغذات کے مطابق انہوں نے اور صدر جیرالڈ فورڈ نے دسمبر 1975 میں انڈونیشیا کے ڈکٹیٹر سہارتو سے ملاقات کی تھی جہاں انہوں نے انہیں مشرقی تیمور پر حملہ کرنے کے لیے گرین لائٹ دی، جس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی جس میں دو لاکھ افراد مارے گئے تھے۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں نیشنل سکیورٹی آرکائیو کو حاصل ہونے والے ٹیلی گرام کے مطابق کسنجر نے انڈونیشیا کے مختصر دورے کے دوران سہارتو سے کہا، ’یہ ضروری ہے کہ آپ جو کچھ بھی کریں وہ جلد کامیاب ہو۔‘

اگلے دن، انڈونیشیا نے پرتگال کی سابق کالونی پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں دہائیوں تک تنازع جاری رہا جو 2002 میں اس وقت ختم ہوا جب تیمور نے بالآخر آزادی حاصل کر لی۔

1995 میں اس معاہدے کی منظوری کے بارے میں پوچھے جانے پر کسنجر نے اس بات سے صاف انکار کیا کہ انہوں نے سہارتو کے ساتھ اس حملے کے بارے میں بات چیت کی تھی، جنہیں خطے میں کمیونزم کی توسیع کے سامنے ایک ڈھال کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

مشرقی تیمور کے صدر جوس راموس ہورٹا نے کسنجر کی موت کے بعد واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا، ’جو لوگ تاریخ ، بین الاقوامی سیاست پر نظر رکھتے ہیں، وہ اس ماضی کے بارے میں جانتے ہیں، جو افسوسناک اور بدصورت تھا۔‘

راموس ہورٹا نے دی پوسٹ کو بتایا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ کسنجر اور دیگر امریکی حکام ’اپنے کیے پر شرمندہ ہیں‘، لیکن متعدد دوبدو ملاقاتوں میں انہوں نے مشرقی تیمور کے عوام کے قتل عام میں اپنے کردار کا کبھی بھی اعتراف نہیں کیا۔

چلی

سلواڈور ایلندے کو 1970 میں چلی کا صدر منتخب ہونے سے بھی بہت پہلے جنوبی امریکہ میں امریکی بالادستی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا جاتا تھا، ایک ایسے وقت میں جب براعظم کے زیادہ تر حصے پر امریکی حمایت سے فوجی آمریتوں کی حکمرانی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوشلسٹ رہنما نے ملک کی تانبے کی کان کنی کی صنعت کو قومی دھارے میں لانے، صحت کی مفت سہولیات اور تعلیم فراہم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کیں تاکہ غریب ترین افراد کو غربت سے باہر نکالنے میں مدد مل سکے۔

انہوں نے سوویت یونین اور فیڈل کاسترو کے کیوبا کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات بحال کیے۔

بعد میں منظر عام پر آنے والی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ کسنجر نے نکسن انتظامیہ کی جانب سے ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں کی قیادت کی اور اس کی حکومت کمزور کرنے اور امریکی کاروباری مفادات کے تحفظ کے لیے خفیہ سرگرمیوں پر کروڑوں روپے خرچ کیے۔

ایلندے کی حکومت کے تین سال بعد، جب ملک کو ریکارڈ افراط زر اور ہڑتالوں کا سامنا کرنا پڑا (جو جزوی طور پر سی آئی اے کی مالی اعانت سے چلائے گئے تھے) جنرل آگسٹو پینوشے کی سربراہی میں ایک بغاوت نے جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

کسنجر نے بغاوت میں کسی بھی قسم کے ملوث ہونے یا اس کا علم ہونے سے انکار کیا، حالانکہ بعد میں خفیہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اور نکسن نے ایلندے کو ایک خطرناک کمیونسٹ قرار دیا تھا اور ان کا تختہ الٹنے کے بیج بوئے تھے۔

ایلندے کو 11 ستمبر 1973 کو صدارتی محل میں قتل کر دیا گیا تھا، جسے ’دوسرے 9/‘11 کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بعد ازاں چلی کی حکومت کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پینوشیٹ کے دور حکومت میں 40 ہزار سے زائد افراد کو سیاسی الزامات کے تحت قتل کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا قید کیا گیا۔

دی پینوشیٹ فائل کے مصنف مورخ پیٹر کورنبلو نے لکھا ہے کہ ’براہ راست کردار‘ کی معمولی ترین تعریف کے تحت ... ایسا لگتا ہے کہ سی آئی اے 11 ستمبر 1973 کو چلی کی فوج کی پرتشدد کارروائیوں میں ملوث نہیں ہے۔

لیکن انہوں نے مزید کہا کہ نکسن وائٹ ہاؤس نے بلاشبہ ’بغاوت کو قبول کیا۔‘

اس کے پانچ دن بعد نکسن کے ساتھ ریکارڈ کی گئی گفتگو میں کسنجر نے اعتراف کیا: ’یہ ہم نے نہیں کیا۔ میرا مطلب ہے کہ ہم نے ان کی مدد کی ... (ناقابل سماعت) حالات زیادہ سے زیادہ سازگار بنائے۔‘

پینوشیٹ کے فوجی جنتا کو امریکہ نے فوری طور پر تسلیم کر لیا اور ڈکٹیٹر نے 1990 تک ملک پر آہنی ہاتھوں سے حکومت کی۔

ارجنٹينا

سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی کیبلز کے مطابق کسنجر نے مارچ 1976 میں صدر ازابیل پیرون کا تختہ الٹنے کے بعد جنرل جارج رافیل وڈیلا کی فوجی جنتا کو امریکی حمایت فراہم کی تھی۔

اس کے نتیجے میں 1976 سے 1983 کے درمیان بدنام زمانہ ڈرٹی وار ہوئی، جس میں ارجنٹائن کے فوجی حکمرانوں نے 10 ہزار سے 30 ہزار شہریوں کو مار دیا یا ’لاپتہ‘ کیا ، جن میں سے بہت سوں کو دوبارہ کبھی نہیں سنا گیا۔

وزیر خارجہ کسنجر نے کانگریس سے ارجنٹائن کی آمریت کے لیے پانچ کروڑ ڈالر کی فنڈنگ حاصل کی۔ وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد، انہوں نے 1978 کے فٹ بال ورلڈ کپ میں وڈیلا کے ذاتی مہمان کی حیثیت سے شرکت کی۔

فوجی حکمرانی کی ہولناکیاں اس وقت بے نقاب ہوئیں جب 1983 میں ارجنٹائن نے دوبارہ جمہوری رہنماؤں کا انتخاب کیا۔ بہت سے سیاسی قیدیوں کو ہیلی کاپٹروں سے بحر اوقیانوس میں پھینکا گیا تھا۔

بعد ازاں وڈیلا کو تشدد، اغوا اور قتل کا قصوروار ٹھہرایا گیا تھا، اور 2013 میں جیل کے اندر ان کی موت ہو گئی تھی۔

بنگلہ دیش

جب 1970 میں مشرقی پاکستان کے نام سے مشہورعلاقے میں جنگ چھڑی تو کسنجر اور نکسن نے اس خطے میں نسل کشی کے لیے مغربی پاکستان کی فوجی حکومت کی حمایت کی جس کے بعد بنگلہ دیش بنا۔

اس وقت مشرقی پاکستان سوویت یونین اور کمیونسٹ جھکاؤ رکھنے والے انڈیا کے خلاف جغرافیائی سیاسی جدوجہد میں امریکہ کا اہم اتحادی تھا۔

جنگ پھیلنے اور انڈیا کے ملوث ہونے کے بعد وائٹ ہاؤس نے غیر قانونی طور پر مشرقی پاکستان کی حکومت کو فوجی سازوسامان منتقل کرکے قتل عام میں معاونت کا انتخاب کیا۔

آزاد محققین نے اموات کی تعداد تین سے پانچ لاکھ کے درمیان بتائی ہے جبکہ بنگلہ دیشی حکام نے یہ تعداد پچاس لاکھ بتائی۔

2013 کی کتاب دی بلڈ ٹیلی گرام میں گیری جے باس نے لکھا تھا کہ کسنجر نے انڈینز کو ’باسٹرڈز‘ کہا تھا اور نکسن نے کہا تھا کہ انہیں ’بہت بڑے قحط‘ کی ضرورت ہے۔

باس نے ان دونوں کے درمیان ہونے والی بات ایک بات چیت کا ذکر جہاں انہوں نے پاکستانی نسل کشی کا موازنہ ہولوکاسٹ سے کیا تھا، لیکن پھر بھی امریکی مداخلت کو غیر دانشمندانہ فیصلہ قرار دیا۔

مبینہ طور پر کسنجر نے محسوس کیا کہ چین کو راغب کرنے کی سفارتی کوششوں میں پاکستان کی مدد لینا زیادہ اہم ہے۔

کسنجر کی موت کے بعد بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن نے ’پاکستانی فوجی جنتا کی حمایت کے لیے تمام امریکی قوانین، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور پاکستان کی غیر قانونی قابض افواج کو ہتھیاروں کی فراہمی میں ان کے کردار کی مذمت کی تھی۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ