برف کے موسم میں سیر کے لیے کہاں جائیں؟ کیا تیاری کریں؟ احتیاط کیسی ہو؟ یہ وہ سوالات ہیں جو سیاحت کے شوقین اکثر پوچھتے ہیں۔
پاکستان کے تمام بلند درے تو برف باری نے نو گو ایریاز میں بدل دیے ہیں۔ دریا سکڑ کر ندیاں بن چکے ہیں، آبشاروں کو تلاش بھی کریں تو منجمد لکیروں کے سوا کچھ نہیں بچا۔ جھیلیں اب کھیل کے نیلے میدان بن چکی ہیں ۔ پہاڑی ڈھلوانوں پر جہاں سبز کالین بچھے تھے، پر پہلے تو سنہری رنگ چڑھا اور پھر سفید چادر بچھ گئی۔
ایسے موسم میں سیاحت ایک احتیاط طلب کام ہے۔
برف اور سردی سے نمٹنے والے ملبوسات کے علاوہ فور بائی فور گاڑی کا انتخاب کریں، ٹائروں پر چڑھنے والے زنجیر ساتھ رکھیں اور بڑے شہروں کے قریب ترین علاقے ایوبیہ کی طرف نکل پڑیں یا پھر نیو مری چلے جائیں کیونکہ وہاں گرم پانی، سستے کمرے اور بنیادی ضروریات کی چیزیں آسانی سے دستیاب ہوتی ہیں۔
مری میں برف باری کے سبب ٹریفک جام، انسانی اموات اور پھر برف میں پھنسی گاڑیوں میں شب بسری کرنے والوں میں ہم بھی بچوں سمیت شامل تھے، اس لیے حاصل مشاہدہ یہ رہا کہ جہاں رش ہو وہاں برف باری میں نہ جایا جائے۔ برف باری میں ہونے والے حادثات دراصل انتظامی نااہلی سے ہوتے ہیں۔
ایوبیہ اور پٹریاٹہ کے بعد وادئ نیلم بھی محفوظ سیر گاہیں ہیں۔ جو لوگ شاردہ، اڑنگ کیل اور کیرن جانا چاہتے ہیں وہ آسانی سے جا سکتے ہیں۔
رتی گلی ٹریک برف میں آسان نہیں رہا اس لیے احتیاط ضروری ہے کیونکہ گلیشیئر پر چلنا بھی خطرناک ہے اور پھسل کر نیچے دھنستے چلے جانا بھی۔
اسلام آباد، پشاور یا کسی بھی میدانی علاقے سے جانے والے افراد براستہ مانسہرہ ہزارہ ایکسپریس وے پر سفر کرتے ہوئے بالاکوٹ کی طرف نہ جائیں کیوں کہ بالا کوٹ کا راستہ آپ کو شوگران یا ناران لے جائے گا اور یہ وادیاں دسمبر میں گلیشیئرز کی لپیٹ میں ہیں۔
وہاں کے تاجر اور ہوٹل مالکان بھی اپنی اپنی دکانیں بند کر کے نیچے آ چکے ہیں۔ سیاح اب ہزارہ ایکسپریس کو چھوڑ کر بالا کوٹ کی طرف جانے کے بجائے، تھاکوٹ تک اسی خوبصورت سڑک پر سفر کریں اور تھاکوٹ سے آگے قراقرم پر آ جائیں، جہاں وہ بشام، شانگلہ، لوئر کوہستان اور اپر کوہستان سے ہوتے ہوئے چلاس پہنچیں اور پھر رائے کوٹ پر رات گزار کر صبح کے ساتھ ہی جیپ کے ذریعے فیری میڈوز پہنچیں، جہاں برفیلے موسم میں پریوں کی چراگاہیں آپ کی منتظر ہیں۔
راستہ خشک ہے مگر نانگا پربت کا برف معبد اور رائے کوٹ گلیشیئر حیرتوں کا اک جہاں آباد کیے ہوئے ہے۔
فیری میڈوز اگر آپ نہیں جانا چاہتے تو قراقرم پر جگلوٹ سے اترتا راستہ آپ کو استور بھی لے کر جا سکتا ہے، جہاں راما میڈوز ہیں۔ راما کی برف جھیل ہے اور ترشنگ گاؤں کے قریب نانگا پربت کا روپل چہرہ آپ کی تھکن اتارنے کے لیے کافی ہے۔ اسی راستے پر دیوسائی بھی ہے مگر وہاں جانا بالکل مناسب نہیں کہ سطح مرتفع پر قدم قدم برفیلی دلدل بچھی ہے۔ استور سے براستہ دیوسائی سکردو جانا غیر سیاحتی فیصلہ ہو گا۔
سکردو جانا ہو تو براستہ قراقرم سکردو روڈ ہی جایا جائے۔ سکردو میں شگر، خپلو، دریائے شیوک، دریائے برالدو اور سندھ اپنی طاقت کھو چکے ہوتے ہیں اور پہاڑوں پر چاندی کے لیپ چڑھی ہوتی ہے۔
شگر سے آگے اسکولے اور کے ٹو کی طرف جانا بھی صرف انہیں راس آتا ہے جنہیں خطرناک کھیل پسند ہیں۔ کَچورا جھیل کا جم چکا منظر بھی سیاحوں کو حیران کرتا ہے۔ سکردو میں برف اترتی ہے مگر دلدل نہیں بنتی اس لیے آسمان سے اترتے روئی کے گالے دیکھنے کے لیے سکردو بہترین مناظر عطا کرتا ہے۔
کچھ لوگ سرد موسم میں کارگل روڈ کا سفر کرتے ہوئے منٹھوکھا آبشار کی منجمد سفید لکیریں دیکھنے جاتے ہیں اور اس بے بس آبشار کو دیکھ کر اداس ہو جاتے ہیں جسے گرم دنوں میں دھاڑتے ہوئے دیکھا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گلگت کے نواح میں غذر اور گاہکوچ میں بھی ہر طرف برف کا راج ہوتا ہے اور راستے بند ہوتے ہیں۔ نگر اور ہنزہ میں اداسی کے سوا کچھ نہیں ملتا، ہاں برف باری کے مناظر مگر ضرور ملتے ہیں۔
وادئ سوات کا ہل سٹیشن کالام برف کے باوجود آباد ہوتا ہے مگر طویل سفر کے سامنے یہ مناظر کم تر ہیں، اگر ہر طرف برف ہی دیکھنی ہو تو پھر ایوبیہ ہی کافی ہے۔
چترال سے پہلے ایون سٹاپ سے وادئ کیلاش کی طرف مڑیں تو بمبوریت، ریمبور اور بریر کی بستیاں اپنے تہوار سمیت سیاحوں کا استقبال کرتی ہیں۔ سات سے 21 دسمبر تک جاری رہنے والے تہوار ’چوموس‘ میں لاکھوں ملکی و غیر ملکی سیاح شرکت کرتے ہیں۔ دو ہزار سال سے اپنی روایات پر عمل پیرا کیلاش قبیلہ برفیلے موسموں میں بھی سیاحت کو آباد رکھتا ہے۔
جن علاقوں میں برف کے ڈھیر زندگی کو معطل نہیں کرتے بلکہ برف باری وادیوں کو حیران کن بنا دیتی ہے وہاں سیاحت بھی جاری رہتی ہے اور سڑکیں بھی کھلی رہتی ہیں۔ بلند درے جن راستوں میں حائل ہیں اور متبادل کوئی ٹنل یا سرنگ نہیں تو وہ نو گو ایریاز بن جاتے ہیں۔
اگر کہیں آپ برف باری کی زد میں آ جائیں اور گاڑی کے ٹائر پھسلنے لگیں تو ٹائروں کی ہوا بہت کم کر دیں۔ گاڑی برف کی لپیٹ میں آ جائے تو گاڑی کے شیشے مسلسل بند نہ رکھیں اور ہیٹر بھی نہ چلائیں۔ سڑک پر پھسلن ہو تو زنجیر ٹائروں پر باندھ لیں۔ چھوٹے گیئر میں کم ایکسیلیٹر آپ کو حادثے سے بچا سکتا ہے۔
برف سے ڈھکی ان وادیوں میں ایڈونچر کریں جن کی کھائیاں آپ کو ازبر ہوں۔ برف کے نیچے تیز ندیاں بھی رواں رہتی ہیں۔
کھانے پینے کا سامان اپنے ساتھ رکھیں کہ ایسے موسم آپ کو کہیں بھی شب بسری پر مجبور کر سکتے ہیں۔ پاکستان ہر موسم میں سیاحت کے لیے موزوں ملک ہے مگر شرط صرف احتیاط کی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔